Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 101
اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤى١ۙ اُولٰٓئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ سَبَقَتْ : پہلے ٹھہر چکی لَهُمْ : ان کے لیے مِّنَّا : ہماری (طرف) سے الْحُسْنٰٓى : بھلائی اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ عَنْهَا : اس سے مُبْعَدُوْنَ : دور رکھے جائیں گے
جن کے لیے پہلے سے73 ٹھہر چکی ہماری طرف سے نیکی74 وہ اس سے دور رہیں گے75
73:۔ ” اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتق لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنیٰ الخ “ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں جب ” اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ الخ “ نازل ہوئی تو کفار قریش اپنے ایک سر کردہ ابن الزبعری کے پاس آئے اور اسے اس آیت کی اطلاع دی تو اس نے کہا اگر میں إحمد کے پاس ہوتا تو اس کو اسکا معقول جواب دیتا۔ قریش نے اس سے پوچھا تو کیا جواب دیتا تو اس نے کہا۔ میں کہتا کہ یہ مسیح بن مریم ہے جس کی نصاریٰ پرستش کرتے ہیں اور یہ عزیر ہے جس کی یہود پرستش کرتے ہیں تو کیا یہ بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے کفار قریش یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ اور انہوں نے سمجھا کہ ابن الزبعری کی بات لاجواب ہے اور محمد کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام، فرشتوں اور اولیاء کرم کو آیت سابقہ کے حکم سے مستثنی فرمادیا۔ کیونکہ ان کے حق میں ” اَلْحُسْنیٰ “ (جنت یا بھلائی اور نیک انجام) کا وعدہ ازل سے ہوچکا ہے۔ من القرطبی وابن کثیر وغیرھما۔ 74:۔ ” اَلْحُسْنیٰ “ اس سے مراد جنت ہے یا رحمت وسعادت یا توفیق طاعت۔ الحسنی ای الجنۃ (قرطبی ج 11 ص 345) ۔ الحسنی یعنی السعادۃ والعدۃ الجمیلۃ الجنۃ (خازن و معالم ج 4 ص 262) ۔ الحسنی ای الخصلۃ المفضلۃ فی الھسن وھی السعادۃ وقیل التوفیق للطاعۃ والمراد من سبق ذلک تقدیرہ فی الازل (روح ج 7 ص 97) ۔ الحسنی الرحمۃ والسعادۃ (جامع البیان ص 289) ۔ 75:۔ ” عَنھَا ای عن جَهَنَّم “ یعنی جن کے لیے حسنی کا وعدہ ہوچکا ہے انہیں جہنم سے دور رکھا جائیگا وہ تو جنت میں ہوں گے۔
Top