Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 104
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ١ؕ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ١ؕ وَعْدًا عَلَیْنَا١ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ
يَوْمَ : جس دن نَطْوِي : ہم لپیٹ لیں گے السَّمَآءَ : آسمان كَطَيِّ : جیسے لپیٹا جاتا ہے السِّجِلِّ : طومار لِلْكُتُبِ : تحریر کا کاغذ كَمَا بَدَاْنَآ : جیسے ہم نے ابتدا کی اَوَّلَ : پہلی خَلْقٍ : پیدائش نُّعِيْدُهٗ : ہم اسے لوٹا دیں گے وَعْدًا : وعدہ عَلَيْنَا : ہم پر اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم میں فٰعِلِيْنَ : (پورا) کرنے والے
جس دن ہم79 لپیٹ لیویں آسمان کو جیسے لپیٹتے ہیں طومار میں80 کاغذ جیسا سرے سے بنایا تھا ہم نے پہلی بار، پھر اس کو دوہرائیں گے81، وعدہ ضرور ہوچکا ہے ہم پر ف، ہم کو پورا کرنا ہے
79:۔ ” یَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ الخ “” یوم “ کا عامل ” اذکر “ محذوف مانا گیا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے اصول کے مطابق اس کا عامل لا یحزنھم یا تتلقھم ہے۔ منصوب باذکر وقیل ظرف للا یحزنم وقیل ظر لتتلقاھم (روح) ۔ اعلم ان التقدیر لا یحزنھم الفزع الاکبر یوم نطوی السماء او وتتلقھم الملئکۃ یوم نطوی السماء (کبیر ج 6 ص 200) ۔ 80:۔ ” کَطَیِّ السِّجِل الخ “ جس طرح بہت سے کاغذوں کے طومار کو لپیٹ دیا جاتا ہے اس طرح قیامت کے دن آسمانوں کی صفوں کو لپیٹ دیا جائے گا۔ یہ نظام عالم کے درہم برہم کرنے سے کنایہ ہے۔ آسمانی تعلیم از آدم تا خاتم النبیین علیہم الصلوۃ والسلام اس پر ناطق ہے کہ یہ عالم کون و فساد حادث ہے اور وہ فنا ہوجائیگا۔ فلاسفہ ملاحدہ نے اس میں اختلاف کیا ہے اور وہ عالم کو ازلی و ابدی مانتے ہیں جو صریح البطلان ہے البتہ صدر الدین شیرازی نے اپنی کتاب اسفار اربعہ میں لکھا ہے کہ متقدین میں اساطین فلاسفہ فناء عالم کے قائل تھے البتہ متاخرین کوتاہ نظری اور بےبصیرتی کی وجہ سے عالم کی ابدیت کے قائل ہیں۔ متقدمین فلاسفہ جو فناء عالم کے قائل ہیں ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں۔ انکسیمائس ملطی۔ فیثا غورث۔ افلاطون اور اس کا شاگرد ارسطا طالیس (کذا فی الروح ج 17 ص 100) ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ 81:۔ ” کَمَا بَدَاْنَا اَوَّلَ خَلْقٍ الخ “ جس طرح آسانی اور سہولت کے ساتھ ہم نے اس ساری مخلوق کو پیدا کیا تھا۔ بالکل اس طرح ہم دوبارہ پیدا کرلیں گے یہ نہایت پختہ بات ہے اور ہم اس پر قادر ہیں اور لا محالہ ایسا کریں گے۔ ” وَعْدًا “ مفعول مطلق ہے۔ فعل مقدر کا۔ ای وعدنا وعدا۔ ” عَلَیْنَا “ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے ای علینا انجازہ والوفاء بہ ای من البعث والاعادۃ (قرطبی ج 11 ص 348) ۔
Top