Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں نصیحت کے پیچھے82 کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے83
82:۔ ” وَلَقَدْ کَتَبْنَا الخ “ یہ مومنین کے لیے بشارت اخروی ہے۔ زبور سے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی کتاب مراد ہے اور ذکر سے تورات یا صحف ابراہیم مراد ہیں۔ ” اَلْاَرْضُ “ جنت کی زمین۔ احسن ما قیل فیہ انہ یراد بھا ارض الجنۃ کما قال سعید بن جبیر لان الارض فی الدنیا قد ورثھا الصالحون وغیرھم وھو قول ابن عباس و مجاھد وغیرھما الخ (قرطبی ) ۔ یا ارض مقدس یا ارض شام مراد ہے اور یہ امت محمدیہ کے لیے بشارت دنیوی ہے۔ وقیل الارض المقدسۃ یرثھا امة محمد ﷺ (بحر ج 6 ص 344) ۔ وقیل المراد بھا الارض المقدسۃ وقیل الشام (روح ج 17 ص 104) ۔ 83:۔ ” عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ الخ “ اس سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام مراد ہے۔ یعنی ارض الجنۃ یرثھا امۃ محمد ﷺ (خازن ج 4 ص 263) ۔ قال مجاھد یعنی امۃ محمد ﷺ (معالم) و اکثر المفسرین علی ان المراد بالعباد الصالحین امۃ مھمد ﷺ (قرطبی ج 11 ص 349) ۔ لیکن انسب یہ ہے کہ اگر الارض سے ارض جنت مراد ہو تو عبادی الصلحون۔ تمام صلحاء کو شامل ہو۔ خواہ وہ کسی پیغمبر کی امت ہوں اور اگر الارض سے ارض شام یا بیت المقدس مراد ہو تو عبادی الصلھون سے امت محمدیہ مراد ہو۔ واللہ تعالیی اعلم بالصواب۔
Top