Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 108
قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يُوْحٰٓى : وحی کی گئی اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : کہ بس اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد (یکتا) فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم مُّسْلِمُوْنَ : حکم بردار (جمع)
تو کہہ مجھ کو تو حکم یہی آیا ہے86 کہ معبود تمہارا ایک معبود ہے پھر کیا ہو تم حکم برداری کرنے والے
86:۔ ” قُلْ اِنَّمَا یُوْحی الخ “ یہ توحید پر دلیل وحی ہے انبیاء (علیہم السلام) سے دلائل نقلیہ کے بعد دلیل وحی ذکر کی گئی۔ جس طرح انبیاء سابقین تمام مصائب و بلیات کے وقت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو متصرف و کارساز سمجھتے اور صرف اسی کو پکارتے تھے سی طرح میری طرف بھی یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ میرا اور تم سب کا معبود اور کارساز اور حاجت روا بھی اللہ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں جب میرا اور مجھ سے پہلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کا یہی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں اور اس کے سوا کوئی حاجت روا اور پکاریں سننے والا نہیں تو کیا اب بھی تم مانو گے یا نہیں ؟ استفہام سے مقصود طلب فعل ہے ای منقادون لتوحید اللہ تعالیٰ : ای فاسلموا کقولہ تعالیٰ ” فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ “ ای انتھوا (قرطبی ج 11 ص 350) ۔ استفہام یتضمن الامر باخلاص التوحید والانقیاد الی اللہ تعالیٰ (بحر ج 6 ص 344) ۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) دعوت توحید اور رد شرک پر متفق ہیں اور انبیاء (علیہم السلام) کا اس پر اتفاق و اجماع اس کے حق ہونے پر بہت بڑی دلیل ہے۔ قال فی شرح المقاصد ان بعثۃ الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام و صدقھم لا یتوقف علی الوحدانیۃ فیجور التمسک بالادلۃ السمیعۃ کا جماع الانبیاء (علیہم السلام) علی الدعوۃ الی التوحید ونفی الشریک وکالنصوص القطعیۃ من کتاب اللہ تعالیٰ علی ذلک (روح ج 17 ص 107) ۔
Top