Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 109
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُكُمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ وَ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ روگردانی کریں فَقُلْ : تو کہ دو اٰذَنْتُكُمْ : میں نے تمہیں خبردار کردیا عَلٰي سَوَآءٍ : برابر پر وَاِنْ : اور نہیں اَدْرِيْٓ : جانتا میں اَقَرِيْبٌ : کیا قریب ؟ اَمْ بَعِيْدٌ : یا دور مَّا تُوْعَدُوْنَ : جو تم سے وعدہ کیا گیا
پھر اگر وہ منہ موڑیں87 تو تو کہہ دے میں نے خبر دی تم کو دونوں طرف برابر اور میں نہیں جانتا نزدیک ہے یا دور ہے88 جو تم سے وعدہ ہوا  
87:۔ ” فَاِنْ تَوَلَّوْا الخ “” اٰذَنْتُکُمْ “ کا مفعول ثانی محذوف ہے ای ما اوحی الی اور ” عَلیٰ سَوَاءٍ “ مفعول اول سے حال واقع ہے یعنی جن امور کی بذریعہ وحی مجھے اطلاع دی گئی ہے اور جن کی تبلیغ کا حکم مجھے دیا گیا ہے مثلاً مسئلہ توحید، انکار کرنے والوں کے لیے عذاب شدید کی وعید اور آخر کار غلبہ اسلام وغیرہ ان امور کی میں نے بلا تخصیص تم سب کو اطلاع دے دی ہے ایسا نہیں کیا کہ کچھ لوگوں کو بتائے ہوں اور کچھ لوگوں سے ان کو چھپا رکھا ہو ای کائنین علی سواء فی الاعلام بذلک لم اخص احدا منکم دون احد (روح ج 17 ص 107) ۔ فقد اعلمتکم ما ھو الواجب علیکم من التوحید وغیرہ علی سواء، فلم افرق فی الابلاغ والبیان بینکم لانی بعثبت معلما۔ (کبیر ج 6 ص 204) ۔ یا ” عَلی سواء “ فاعل اور مفعول دونوں سے حال ہے یعنی میں نے تمہیں مسئلہ توحید عقل و نقل اور وحی کے دلائل سے اس طرح واضح اور عیاں کر کے بتا اور سمجھا دیا ہے کہ اب اس مسئلہ کے جاننے اور سمجھنے میں اور تم برابر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ضد اور عناد کی وجہ سے تم اس کا اقرار نہ کرو۔ ای مستویا انا وانتم فی العلم بما اعلمتکم بہ من وحدانیۃ اللہ تعالیٰ لقیام الادلۃ علیھا (روح ) ۔ 88:۔ ” وَ اِنْ اَدْرِيْ الخ “ یہ دعوی سورت کا اعادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں یعنی میں نے تمہیں یہ بات تو صاف صاف بتا دی ہے کہ مسئلہ توحید نہ مانوگے تو آخرت میں ذلت آمیز عذاب اور ہولناک عقاب میں متبلاء کیے جاؤ گے اور دنیا میں بھی آخر تم مغلوب ہوگے اور اسلام کا بول بالا ہوگا۔ یہ سب کچھ ضرور ہوگا مگر اس بات کا علم نہیں کہ یہ امور کب واقع ہوں گے۔ تمہاری تباہی و بربادی ہوجا کر اسلام کو کس سنہ میں غلبہ نصیب ہوگا اور قیامت کب قائم ہوگی۔ ان امور کا علم اللہ تعالیٰ مجھے عطاء نہیں فرمایا وھذا الایذان ھو اعلان بما یحل بمن تولی من العقاب وغلبۃ الاسلام ولکنی لا ادری متی یکون ذلک (بحر ج 6 ص 346) ۔ ” مَا تُوْعَدُوْنَ “ کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں۔ غلبہ اسلام، مشرکین پر دنیوی عذاب اور قیامت وغیرہ بہرحال اس سے جو بھی مراد ہو۔ وہ نزول آیت کے بعد زمانہ مستقبل میں واقع ہونے والا ہے اپنی ذات سے جس کے علم کی نفی کرنے کا آپ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے۔ سید محمود آلوسی لکھتے ہیں۔ ” ما توعدون “ من غلبۃ المسلمین و ظہور الدین او الحشر مع کونہ اتیا لا محالۃ (روح) ۔ امام رازی فرماتے ہیں۔ اقریب ام بعید ما توعدون من یوم القیامۃ و من عذاب الدنیا ان ما یوعدون بہ من غلبۃ المسلمین علیھم کائن لا محالۃ ولابد ان یلحقہھم بذالک الذل والصغار وان کنت لا ادری متی یکون ذلک لان اللہ تعالیٰ لم یطلعنی علیہ (کبیر ج 6 ص 205) ۔ یعنی جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ لا محالہ ہو کر رہے گی مگر مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ کب واقع ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی اطلاع نہیں دی اور مجھے اس کے معین وقت کا علم عطاء نہیں فرمایا۔ امام ابو البرکات نسفی حنفی رقمطراز ہیں ای لادری متی یکون یوم القیامۃ لان اللہ تعالیٰ لم یطلعنی علیہ ولکنی اعلم بانہ کائن لامحالۃ او لا دری متی یحل بکم العذاب ان لم تومنوا (مدارک ج 3 ص 71) ۔ علامہ خازن راقم ہیں ” ماتوعدون “ یعنی یوم القیامۃ لا یعلمہ الا اللہ (خازن ج 4 ص 264) ۔ علامہ قرطبی خامہ فرسا ہیں ” ما توعدون “ یعنی اجل یوم القیامۃ لا یدریہ احد لا نبی مرسل ولا ملک مقرب قالہ ابن عباس وقیل اذنتکم بالھرب ولکنی لا ادری متی یوذن لی فی محاربتکم (قرطبی ج 11 ص 350) ۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں۔ ای ھو واقع لا محالۃ ولکن لا علم لی بقربہ ولا ببعدہ (قبن کثیر ج 3 ص 202) ۔
Top