Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 26
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ
وَقَالُوا : اور انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا الرَّحْمٰنُ : اللہ وَلَدًا : ایک بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ عِبَادٌ : بندے مُّكْرَمُوْنَ : معزز
اور کہتے ہیں رحمان نے کرلیا کسی کو بیٹا وہ ہرگز اس لائق نہیں21 لیکن وہ بندے ہیں جن کو عزت دی ہے
21:۔ یہ شکوی ہے یعنی انبیاء (علیہم السلام) اسی مسئلہ توحید کے مبلغ تھے ان کے بعد ناخلف اور گمراہ لوگوں نے شرک پھیلایا۔ انبیاء (علیہم السلام) تو مسئلہ توحید کو خوب واضح کرتے رہے لیکن اس کے باوجود مشرکین نے خود ساختہ کارساز بنا لیے۔ اس کے بعد اس کے ساتھ جواب مذکور ہیں۔ جواب اول ” سُبْحٰنَهٗ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بہت بلندو برتر اور اعلیٰ وارفع ہے۔ کہ اس کی عاجز و بےبس مخلوق میں سے کوئی اس کا ولد اور نائب ہو۔ جواب ثانی ” بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ الخ “ فرشتوں کو اللہ کا ولد اور اس کے کارخانہ عالم میں دخیل سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ اللہ کے باعزت بندے ہیں۔ جواب ثالث ” لَایَسْبِقُوْنَهٗ الخ “ وہ اس کے سامنے ہر وقت ترساں و لرزاں رہتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر بات بھی نہیں کرسکتے۔ جواب رابع ” وَھُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ الخ “ وہ اللہ تعالیٰ کے پورے پورے فرمانبردار ہیں۔ جواب خامس ” یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ “ سب کچھ جاننے والا صرف اللہ ہی ہے۔ فرشتے نہیں۔ جواب سادس و سابع ” لَا یَشْفَعُوْنَ الخ “ وہ ہر وقت اللہ کی ہیبت کے سامنے خائف رہتے ہیں اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکیں گے۔ ” اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰے “ اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے حق میں فرشتوں کو شفاعت کی اجازت ہوگی۔ مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں اور توحید پر قائم رہیں اور شفاعت سے آخرت کی شفاعت مراد ہے اور اگر دنیا میں شفاعت مراد ہو تو اس کا مطلب استغفار ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں عن ابن عباس من قال لا الہ الا اللہ و شفاعتہم الاستغفار (روح ج 17 ص 33) وفی الدنیا ایجا فانھم یستغفرون للمؤمنین الخ (قرطبی ج 11 ص 281) ۔
Top