Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 3
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى١ۖۗ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
لَاهِيَةً : غفلت میں ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَسَرُّوا : اور چپکے چپکے بات کی النَّجْوَي : سرگوشی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا (ظالم) هَلْ : کیا ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم ہی جیسا اَفَتَاْتُوْنَ : کیا پس تم آؤگے السِّحْرَ : جادو وَاَنْتُمْ : اور (جبکہ) تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
کھیل میں پڑے ہیں دل ان کے اور چھپا کر مصلحت کی بےانصافوں نے4 یہ شخص کون ہے5 ایک آدمی ہے تم ہی جیسا پھر کیوں پھنستے ہو اس کے جادو میں آنکھوں دیکھتے
4:۔ یعنی جب قرآن سنتے ہیں تو اس کے خلاف آپس میں سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں۔ ” الذین ظلموا “ بظاھر ” اسروا “ کا فاعل معلوم ہوتا ہے۔ مگر قاعدہ کے مطابق فاعل ظاہر جمع کے لیے فعل مفرد آنا چاہئے تھا۔ مفسرین اور ائمہ نحو نے اس کے بہت سے جواب دئیے ہیں۔ جن کا حاصل یہ ہے کہ موصول ” اسروا “ کا فاعل نہیں بلکہ (1) ” اسروا “ کی ضمیر ” الناس “ کی طرف راجع ہے اور ” الذین ظلموا “ اس سے بدل ہے (2) الذین کا فعل یقول اس سے پہلے محذوف ہے (3) الذین سے پہلے فعل اعنی محذوف ہے اور یہ اس کا مفعول ہے۔ (4) یہ مجرور ہے۔ اور مع صلہ الناس کی صفت ہے۔ یا اسروا کی واو علامت جمع ہے۔ علامت فاعل نہیں (من القرطبی والبحر وغیرہما) ۔ 5:۔ یہ مشرکین کا بہت بڑا اعتراض تھا۔ کہ یہ پیغمبر تو ہماری طرح بشر اور انسان ہے ہم اسے اللہ کا رسول کیوں مانیں۔ پیغمبر تو کوئی فرشتہ ہونا چاہئے تھا۔ ” اَفَتَاتُوْنَ السِّحْرَ الخ “ اور پھر بشر اور آدمی بھی وہ جو (معاذ اللہ) جادوگر ہے تو کیا تم عقلمند ہو کر اس کی باتیں مانو گے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جو بشر ہو وہ رسول نہیں ہوسکتا۔ بلکہ رسول فرشتہ ہوتا ہے اور جو بشر ہو کر رسالت کا دعوی کرے اور معجزہ دکھائے وہ جادوگر ہوتا ہے۔ وکانوا یعقدون ان الرسول من عنداللہ لا یکون الا ملکا وان کل من ادعی الرسالۃ من البشر وجاء بمعجزۃ فھو ساحر و معجزتہ سحر (بحر ج ص 297) ۔
Top