Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 57
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ
وَتَاللّٰهِ : اور اللہ کی قسم لَاَكِيْدَنَّ : البتہ میں ضرور چال چلوں گا اَصْنَامَكُمْ : تمہارے بت (جمع) بَعْدَ : بعد اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم جاؤگے مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
اور قسم اللہ کی میں علاج کروں گا تمہارے بتوں کا جب تم جا چکو گے پیٹھ پھیر کر40
40:۔ ” وَ تَاللّٰهِ لَاَکِیْدَنَّ الخ “ حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ قوم نے ان ٹھوس عقلی دلائل سے کوئی اثر نہیں لیا تو اب ایک نہایت موثر اور محسوس طریقہ سے ان کے معبودان باطلہ کی بےچارگی کو واضح کرنے کی ایک نئی اسکیم سوچی چناچہ دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ تم اپنے میلے پر تو جاؤ پھر دیکھنا میں تمہارے معبودوں کی کیا گت بناتا ہوں ” فَجَعَلَھُمْ جُذَاذًا “ جب مشرکین اپنے تہوار میں شریک ہونے کے لیے شہر سے باہر چلے گئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تمام مورتیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا البتہ سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ تاکہ جب مشرکین واپس آ کر سارا ماجرا دیکھیں تو بڑے بت کی طرف رجوع کریں اور اس سے پوچھیں کہ حضرت یہ کیا ماجرا ہے کہ یہ حضرات سب کے سب ٹوٹے پڑے ہیں مگر آپ صحیح و سلامت براجمان ہیں اور کلہاڑا آپ کے کندھے پر ہے ان المعنی یرجعون الیہ کما یرجع الی العالم فی حل المشکلات فیقولون ما لھؤلاء مکسورۃ ومالک صحیحا والف اس علی عاتقک (کبیرج 162) ۔ اس سے مقصود الزام حجت تھا۔
Top