Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 61
قَالُوْا فَاْتُوْا بِهٖ عَلٰۤى اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُوْنَ
قَالُوْا : وہ بولے فَاْتُوْا : ہم نے سنا ہے بِهٖ : اسے عَلٰٓي : سامنے اَعْيُنِ : آنکھیں النَّاسِ : لوگ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَشْهَدُوْنَ : وہ دیکھیں
وہ بولے اس کو لے آؤ لوگوں43 کے سامنے شاید وہ دیکھیں
43:۔ ” قَالُوْا فَاتُوْا الخ “ اب مشرکین نے کہا تو پھر اس (ابراہیم علیہ السلام) کو لوگوں کے روبرو لاؤ۔ تاکہ سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ہم اسے کس قدر عبرتناک سزا دیتے ہیں۔ ای یحضرون عقبوتنا لہ (مدارک ج 3 ص 36) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ ابراہیم کو سر عام حاضر کرو تاکہ کچھ اور لوگ بھی اس کے خلاف شہادت دیں۔ انھم کرھوا ان یاخذوہ بغیر بینۃ فارادوا ان یجیئوا بہ علی اعین الناس لعلھم یشھدون علیہ بما قالہ فیکون حجۃ علیہ بما فعل وھذا قول الھسن وقتادۃ والسدی وعطا وابن عباس (ج 6 ص 163) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اس واقعہ سے یہی مقصد تھا کہ جب یہ معاملہ ان تماثیل کے تمام پجاریوں کے علم میں آئے اور ان سب کے سامنے پیش ہو اس وقت وہ ان کی جہالت اور بےوقوفی ظاہر کریں اور ان کے سامنے برملا ان کے معبودوں کی بےچارگی اور بےبسی کو واضح کرسکیں اور اس حقیقت کا اعلان کرسکیں کہ جن معبودوں کو تم ھاجت روا اور مشکل کشا اور نافع و ضار سمجھتے ہو۔ ان کے عجز کا یہ حال ہے کہ وہ کود اپنی ذاتوں سے بھی دفع ضرر کی قدرت نہیں رکھتے اس لیے وہ تمہارا بھی کچھ سنوار یا بگار نہیں سکتے اور نہ کچھ تمہیں دے سکتے ہیں۔ ” فَاتُوْا بِهٖ عَلیٰ اَعْیُنِ النَّاسِ “ ای علی رؤوس الاشھاد فی الملاء الاکبر بحضرۃ الناس کلھم لکان ھذا ھو المقصود الاکبر لابراہیم (علیہ السلام) ان یبین فی ھذا المحفل العظیم کثرہ جھلھم وقلۃ عقلھم فی عبادۃ ھذہ الاصنام التی لا تدفع عن نفسھا ضر او لا تملک لھا نصرا فکیف یطلب منھا شیء من ذالک (ابن کثیر ج 3 ص 182) ۔
Top