Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 69
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ
قُلْنَا : ہم نے حکم دیا يٰنَارُكُوْنِيْ : اے آگ تو ہوجا بَرْدًا : ٹھنڈی وَّسَلٰمًا : اور سلامتی عَلٰٓي : پر اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈک ہوجا اور آرام50 ابراہیم پر
50:۔ ” قُلْنَا یٰنَارُالخ “ نمرود نے اسی گز لمبی اور چالیس گز چوڑی چار دیوار بنوائی اور اس میں چالیس دن تک ایندھن جمع کرایا اور اس کو آگ لگا دی جب آگ خوب مشتعل ہوگئی اور ہر طرف سے اس کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے تو حضرت ابراہیم کو اس میں پھینکا گیا جب وہ ان کو آگ میں پھینکنے کی تیاریاں کر رہے تھے اس وقت اللہ کا خلیل ماسوی اللہ سے اعراض کر کے اپنے مولیٰ و آقا سے مناجات میں مصروف تھا اور آسمان کی طرف رخ کر کے عرض کر رہا تھا۔ اللھم انت الواحد فی السماء وانا الواھد فی الارض لیس احد یعبدک غیری حسبی اللہ ونعم الوکیل۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں لا الہ الا انت سبحنک رب العلمین لک الحمد ولک الملک لا شریک لک۔ ادھر اللہ تعالیٰ کے خلیل کو آگ میں پھینکا گیا اور ادھر سے اللہ کا حکم پہنچ گیا ” یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلَامًا عَلیٰ اِبْرَاھِیْم “ اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم کے لیے سلامتی اور آرام و راحت بن جا (قرطبی، روح بحر وغیرہ) ۔ چناچہ آگ کے شعلے بھڑکتے رہے اور فضا کو اپنی روشنی سے منور کرتے رہے مگر ان سے حرارت اور جلانے کی خاصیت سلب کرلی گئی ہر چیز میں اللہ تعالیی نے جو خاصیت و تاثیر رکھی ہے وہ اللہ کے ھکم کے بغیر اپنا اثر ظاہر نہیں کرسکتی آگ میں جلانے کی خاصیت ہے اور وہ جلاتی ہے مگر نار ابراہیم سے اللہ نے جلانے کی صلاحیت سلب کرلی اور اس کی روشنی بدستور باقی رہی۔ قال الزمکشری فان قلت کیف بردت النار وھی النار قلت نزع اللہ عنھا بطعھا الذی طبعھا علیہ من الحر والاحراق وابقاھا علی الاضاءۃ والاشراق و الاشتعال کما کانت واللہ علی کل شیء قدیر (بحر ج 6 ص 328) ۔ یہ واقعہ زبردست دلیل ہے کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز اور متصرف و مختار نہیں۔
Top