Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 87
وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ١ۖۗ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ
وَ : اور ذَا النُّوْنِ : ذوالنون (مچھلی والا) اِذْ : جب ذَّهَبَ : چلا وہ مُغَاضِبًا : غصہ میں بھر کر فَظَنَّ : پس گمان کیا اس نے اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ : کہ ہم ہرگز تنگی نہ کریں گے عَلَيْهِ : اس پر فَنَادٰي : تو اس نے پکارا فِي الظُّلُمٰتِ : اندھیروں میں اَنْ لَّآ : کہ نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنْتَ : تیرے سوا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے اِنِّىْ : بیشک میں كُنْتُ : میں تھا مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور مچھلی والے کو جب59 چلا گیا غصہ ہو کر پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ60 سکیں گے اس کو پھر پکارا61 ان اندھیروں میں کہ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے تو بےعیب ہے میں تھا گنہگاروں سے
59:۔ ” وَ ذَالنُّوْنِ اِذْ الخ “ یہ آٹھویں تفصیلی عقلی دلیل ہے حضرت یونس (علیہ السلام) عرصہ تک اپنی قوم کو دعوت و تبلیغ کے بعد ان کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور ان کے انکار و اصرار پر ناراض ہو کر ہجرت کرلی حالانکہ ابھی تک اللہ کی جانب سے اس قسم کا کوئی حکم ان پر نازل نہیں ہوا۔ غالباً اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کیا کہ ان لوگوں پر اب حجت خداوندی تام ہوچکی ہے اور ان کے یمان لانے کی کوئی امید نہیں اب تو عنقریب ہی ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے والا ہے اس لیے یہاں سے ہجرت کر جانا چاہئے۔ ” مُغَاضِبًا “ ای غضبان علی قومہ لشدۃ شکیمتھم وتمادی اصرارھم مع طول دعوتہ ایاھم وکان ذھابہ ھذا ھجرۃ عنھم لکنہ لم یومر بہ (روح ج 17 ص 83) ۔ چناچہ جب وہ اپنے شہر سے نکل کر روانہ ہوئے اور بحیرہ روم کے کنارے پہنچے تو کشتی تیار تھی اس میں سوار ہوگئے کشتی گرداب میں پھنس گئی اور غرق ہونے لگی تو ملاحوں نے کہا کہ سواریوں میں کوئی بھاگا ہوا غلام ہے اور ہمارا دستور یہ ہے کہ ایسے موقع پر ہم قرعہ اندازی کرتے ہیں جس کے نام کا قرعہ نکلے اسے سمندر میں پھینک دیتے ہیں چناچہ تین مرتبہ قرعہ ڈالا گیا تینوں مرتبہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکلا اب وہ سمجھے کہ انہوں نے بلا امر ربانی ہجرت کر کے غلطی کی ہے اور ملاحوں سے کہا بیشک میں ہی اپنے آقا کے حکم کے بغیر بھاگا ہوا غلام ہوں اور سمندر میں چھلانگ لگا دی ایک بڑی مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ اللہ نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس کو کوئی تکلیف نہ دینا میں نے اسے تیری غذا نہیں بنایا بلکہ تیرے پیٹ کو اس کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔ 60:۔ ” وَ ظَنَّ انْ لَّنْ نَّقْدِرَ الخ “ نقدر یہاں قدرۃ سے نہیں بلکہ قدر سے ہے جس کے معنی قضا یا تنگی کرنے کے ہیں۔ یعنی یونس (علیہ السلام) قبل نزول امر ہجرت کر کے چلے گئے اور ان کا خیال تھا کہ اس فعل پر ان کو سزا دینے کا ہم کوئی فیصلہ نہیں کرینگے یا ہم ان پر کسی قسم کی تنگی نہیں کرینگے۔ ای لن نقضی علیہ العقوبۃ قالہ ابن عباس فی روایۃ عنہ وقیل معناہ فظن ان لن نضیق علیہ الحبس (خازن ج 4 ص 258) ۔ فظن ان لن نقدر علیہ ای لن نضیق علیہ وھو کقولہ تعالیٰ اللہ یبسط الرزق لمن یشاء من عبادہ و یقدر ای یضیق و من قدر علیہ رزقہ ای ضیق الخ (کبیرج 6 ص 189) ۔ 61:۔ ” فَنَادٰي فِی الظُّلُمٰتِ الخ “ مچھلی کے پیٹ میں پہنچ کر حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنے قصور کا اعتراف کیا اور اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مصروف ہوگئے آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی آہ وزاری قبول فرمائی اور مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے مچھلی کے پیٹ میں خدا کو پکارا اس سے معلوم ہوا کہ وہ خود متصرف و کارساز نہ تھے کہ اپنے آپ کو اس مصیبت سے بچا لیتے۔ ” فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ “ ان کی دعا ہم ہی نے قبول کی۔ ” وَ نَجَّیْنَاه “ اور مصیبت سے ہم ہی نے ان کو بچایا۔
Top