Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 92
اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً١ۖ٘ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ
اِنَّ : بیشک هٰذِهٖٓ : یہ ہے اُمَّتُكُمْ : تمہاری امت اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک (یکتا) ڮ وَّاَنَا : اور میں رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاعْبُدُوْنِ : پس میری عبادت کرو
یہ لوگ ہیں تمہارے دین کے سب ایک دین پر64 اور میں ہوں رب تمہارا سو65 میری بندگی کرو
64:۔ ” اِنَّ ھٰذِهٖ اُمَّتُکُمْ الخ “ یہ تمام مذکورہ دلائل نقلیہ سے متعلق ہے یعنی ان تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین ایک ہی تھا اور وہ سارے کے سارے توحید پر متفق تھے اور سب کا یہی مسلک تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور اس کے سوا حاجات میں غائبانہ پکار کے لائق بھی کوئی نہیں۔ ” اُمَّةً “ یہاں ملت اور دین کے معنوں میں مستعمل ہے اور مراد ملت اسلام اور ملت توحید ہے جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی ملت ہے۔ الامۃ الملۃ وھذہ الاشارۃ الی ملۃ الاسلام وھی ملۃ جمیع الانبیاء (مدرک ج 3 ص 68) ۔ خطاب للناس قاطبۃ والاشارۃ الی ملۃ التوحید والاسلام (روح ج 17 ص 89) ۔ لما ذکر الانبیاء قال ھؤلاء کلھم مجتمعون علی التوحید فالامۃ بمعنی الدین الذی ھو الاسلام قالہ ابن عباس و مجاھد وغیرھما (قرطبی) ۔ 65:۔ ” وَ اَنَا رَبُّکُمْ الخ “ حضرت شیخ فرماتے ہیں۔ واؤ تفسیریہ ہے اور جملہ ماقبل کی تفسیر ہے یعنی تمام انبیاء (علیہم السلام) کی ملت واحدہ یہ ہے کہ میں تم سب کا رب اور کارساز ہوں لہذا تم سب صرف میری عبادت کرو اور صرف مجھے ہی پکارو ای لادین سوی دینی ولا رب غیری فاعبدونی ووحدونی (خازن ج 4 ص 260) ای انا الھکم الہ واحد (فاعبدونی) خاصۃ (روح ج 17 ص 90) ۔
Top