Jawahir-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 95
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ
وَحَرٰمٌ : اور حرام عَلٰي قَرْيَةٍ : بستی پر اَهْلَكْنٰهَآ : جسے ہم نے ہلاک کردیا اَنَّهُمْ : کہ وہ لَا يَرْجِعُوْنَ : لوٹ کر نہیں آئیں گے
اور مقرر ہوچکا ہر بستی پر جس کو غارت کردیا ہم نے کہ وہ پھر کر نہیں آئیں گے68
68:۔ ” وَ حَرَامٌ عَلیٰ قَرْیَةٍ الخ “ حرام یعنی ناممکن اور ممتنع۔ ” اَھْلَکْنَا “ یعنی ہم نے ان کی ہلاکت کا فیصلہ کردیا۔ ” لَایَرْجِعُوْنَ “ بمعنی مصدر ہے یعنی عدم رجوعھم اور مطلب یہ ہوگا کہ جزاء کے لیے ان کا ہماری طرف واپس نہ آنا ممتنع ہے یعنی ضرور ہمارے پاس آئیں گے ای ممتنع البتۃ عدم رجوعھم الینا للجزاء (روح) یا ” لا “ زائدہ اور سیف خطیب ہے یعنی جن لوگوں کی تباہی اور ہلاکت کا ہم نے فیصلہ کردیا ان کا شرک و کفر سے توبہ کر کے توحید اور اسلام کی طرف آنا ممتنع اور ناممکن ہے کیونکہ عذاب سے ہلاک کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جاتا ہے جب حجت خداوندی پوری ہوجائے اور منکرین کے دلوں پر ان کے مسلسل ضد وعناد کی وجہ سے مہر جباریت لگ جائے اور ان کے رجوع الی الحق کے تمام امکانات ختم ہوجائیں۔ المعنی و ممتنع علی قریۃ قدرنا ھلاکھا او حکمنا بہ رجوعھم الینا ای توبتھم علی ان (لا) سیف خطیب مثلھا فی قولہ تعالیٰ (ما منعک) ان لا تسجد فی قول (روح ج 17 ص 91) ۔ حضرت شیخ (رح) وفرماتے ہیں کہ حرام مبتداء محذوف کی خبر ہے یعنی الایمان حرام الخ اس صورت میں انھم لا یرجعون جملہ ماقبل سے بدل ہوگا اور لا زائدہ نہیں ہوگا قال مجاھد والحسن لایرجعون من الشرک ولایتوبون عنہ وھو قول مجاھد والھسن (کبیر ج 6 ص 194) ۔
Top