Jawahir-ul-Quran - Al-Hajj : 15
مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ
مَنْ : جو كَانَ يَظُنُّ : گمان کرتا ہے اَنْ : کہ لَّنْ يَّنْصُرَهُ : ہرگز اس کی مدد نہ کریگا اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت فَلْيَمْدُدْ : تو اسے چاہیے کہ تانے بِسَبَبٍ : ایک رسی اِلَى السَّمَآءِ : آسمان کی طرف ثُمَّ : پھر لْيَقْطَعْ : اسے کاٹ ڈالے فَلْيَنْظُرْ : پھر دیکھے هَلْ : کیا يُذْهِبَنَّ : دور کردیتی ہے كَيْدُهٗ : اس کی تدبیر مَا يَغِيْظُ : جو غصہ دلا رہی ہے
جس کو یہ خیال ہو25 کہ ہرگز نہ مدد کرے گا اس کی اللہ دنیا میں اور آخرت میں تو تان لے ایک رسی آسمان کو پھر کاٹ ڈالے اب دیکھے کچھ جاتا رہا اس کی اس تدبیر سے اس کا غصہ
25:۔ ” مَنْ کَانَ یَظُنُّ الخ “ جمہور مفسرین نے ” یَنْصُرَهُ “ کی ضمیر منصوب کا مرجع آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کو قرار دیا ہے کیونکہ قرآن پڑھتے وقت آپ کا تصور ذہن میں رہتا ہے اس لیے کہ آپ قرآن کے مخاطب اول ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اپنے پیغمبر ﷺ کی مدد کرے گا۔ دنیا میں آپ کے دین اور آپ کے متبعین کو سربلند کر کے اور آخرت میں آپ کا درجہ سب سے بلند کر کے آپ کے متبعین کو جنت میں داخل فرما کر اور آپ کے دشمنوں کو جہنم رسید کرے گا لیکن جس شخص کا ازراہ بغض و حسد یہ گمان ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں آپ کی مدد نہیں کرے گا تو وہ بغض و حسد کی آگ میں جل مرے تو کیا حسد و عداوت کے جذبہ میں کوئی سخت اقدام کرنے مثلاً خود کشی کرلینے سے اس کے سینے کی آگ سرد ہوجائیگی۔ قال ابن عباس ان الکنایۃ فی ” یَنصْرَہُ اللّٰهُ “ ترجع الی محمد ﷺ (قرطبی ج 12 ص 21) اور ” السَّمَاء “ سے گھر کی چھت مراد ہے اور ” لِیَقْطَعْ “ بمعنی لیختنق یعنی چھت سے رسی لٹکا کر خودکشی کرے والمعنی لیشدو حبلا فی سقف بیتہ فلیختنق بہ حتی یموت (خازن ج 5 ص 7) ۔ جیسا کہ حاسد سے کہا جاتا ہے اگر تجھے یہ بات پسند نہیں تو حسد سے جل کر مرجا کما یقال لحاسد ان لم ترض ھذا فاختنق و مت غیظاً (معالم ج 5 ص 7) ۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو یہ بات ناگوار ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی مدد کرے تو اگر اس کو روکنے کی طاقت ہو تو آسمان پر چڑھ جائے اور مدد کا سرچشمہ بند کر کے اس کو منقطع کردے پھر دیکھے کہ اس حیلے سے وہ مدد کو روک کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرسکتا ہے فلیطلب حیلۃ یصل بھا الی السماء ” ثُمَّ لْیَقْطَعْ “ ای ثم لیقطع النصر ان تھیا لہ (قرطبی) ۔ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں۔ دنیا کی تکلیف میں جو کوئی خدا سے ناامید ہو کر اس کی بندگی چھوڑ دے اور جھوٹی چیزیں پوجے۔ جن کے ہاتھ نہ برا نہ بھلا۔ وہ اپنے دل کے ٹھہرانے کو یہ صورت قیاس کرے جیسے ایک شخص اونچی رسی سے لٹک رہا ہو اگر چرھ نہیں سکتا توقع تو ہے کہ رسی اوپر کھنچے تو چرھ جائے۔ جب رسی تور دی پھر کیا توقع رہی۔ اس مطلب کی صورت میں ” یَنْصُرَهٗ “ کی ضمیر منصوب مَنْ کی طرف راجع ہوگی۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا کہ پہلی دونوں صورتوں میں اس آیت کا ماقبل سے ربط واضح نہیں ہوگا کیونکہ اس سے پہلے غیر اللہ کی پکار کے غیر نافع ہونے کا ذکر ہے اس لیے ربط میں تکلف ہوگا یعنی مسئلہ توحید کو بیان کرنے والے چونکہ اللہ کے یغمبر حضرت محمد ﷺ ہیں اس لیے مشرکین کا خیال تھا کہ اللہ اس کی مدد نہیں کرے گا اس لیے کہ اس تکلف سے بچنے کے لیے شاہ عبدالقادر (رح) کا مطلب موزوں ہے یا مطلب یہ ہو کہ غیر اللہ کو پکارنے والوں کو اگر یہ گمان ہو کہ اللہ ان کی مدد نہیں کرے گا اس لیے انہوں نے اولیائے کرام کو شفعاء بنایا ہوا ہے تو وہ دل کے اطمینان کی خاطر پہلے ان لوگوں کا خیال کریں جو حاجات و مشکلات میں غیر اللہ کو پکارتے ہیں پھر ان لوگوں کا خیال کریں جو خالص اللہ کو پکارتے ہیں۔
Top