بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
کام نکال لے گئے2 ایمان والے3
2:۔ ” قَدْ اَفْلَحَ الخ “ کے مفہوم میں دو باتیں داخل ہیں ایک مطلوب و مقصود کو پالینا۔ دوم جس سے ڈر یا خطرہ ہو اس سے محفوظ ہوجانا۔ والفلاح الظفر بالمطلوب والنجاۃ من الرھوب ای فاذوا بما طلبوا ونجو مما ھربوا (مدارک ج 3 ص 87) ۔۔ سورة حج کی ابتدا میں ” اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةَ شَیْءٍ عَظِیْمٍ “ سے جس خوفناک عذاب کی وعید سنائی گئی اس سے وہ مومنین محفوظ رہیں گے جو اپنے اندر اوصاف ذیل پیدا کرلیں گے (1) خدا سے ڈر کر نماز قائم کریں۔ (2) ہر قسم کے شرک سے بچیں اور (3) مخلوق خدا پر ظلم نہ کریں۔ یہ تینوں امور عذاب خداوندی سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔ 3:۔ ” اَلْمُوْمِنُوقنَ الخ “ المومنون سے وہ لوگ مراد ہیں جو اللہ کی توحید، رسالت اور دیگر تمام ضروریات دین پر ایمان لائیں اور احکام الٰہیہ پر عمل پیرا ہوں۔ اس طرح بعد والی صفات المومنون کے لیے صفات موضحہ ہیں۔ ” اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ “ یہ امر اول ہے وہ نماز قائم کرتے ہیں وہ نماز میں اللہ سے ڈرتے اور عاجزی کرتے ہیں اور خدا کے خوف سے نماز پر مداومت کرتے ہیں کیونکہ ایسی خشوع والی نماز سے باطن کی صفائی ہوتی ہے اور دلوں میں محبت اور الفت پیدا ہوتی ہے فی الحدیث سووا صفوفکم او لیخالفن اللہ بین قلوبکم۔ خشوع یہ ہے کہ نماز میں خیالات جمع رہیں اور توجہ صرف نماز ہی میں مرکوز رہے اور نماز کے علاوہ کسی چیز کا دل میں خیال تک نہ آئے اور ہاتھ پاؤں سے نماز میں کوئی عبث کام کرے۔ وفی المنھاج و شرحہ لابن حجر و لیس الخشوع فی کل ژلاتہ بقلبہ بان لا یحضر فیہ غیر ما ھو فیہ وان تعلق بالاخرۃ و بجوارحہ بان لا یعبث باحدھا (روح ج 18 ص 4) ۔
Top