Jawahir-ul-Quran - Al-Muminoon : 12
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ
وَ : اور لَقَدْ خَلَقْنَا : البتہ ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے سُلٰلَةٍ : خلاصہ (چنی ہوئی) مِّنْ طِيْنٍ : مٹی سے
اور ہم نے بنایا11 آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے
11:۔ ” وَلَقَدْ خَلَقْنَا الخ “ یہ توحید پر پہلی عقلی دلیل ہے اور اس سے نفی شرک فی التصرف مقصود ہے۔ ” وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَان “ تا ” یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ “ میں انسانی زندگی کے مختلف چار ادوار کا ذکر کیا گیا ہے۔ (1) رحم مادر میں رہنے کا زمانہ (2) دنیوی زندگی کا دور (3) برزخی زندگی کا دور (4) اخروی زندگی کا دور۔ مقصد یہ ہے کہ انسانی زندگی کے یہ تمام انقلابات خداوند تعالیٰ کے اختیار و تصرف میں ہیں اور کسی غیر اللہ کو ان میں کوئی دخل نہیں لہذا وہی سب کا کارساز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا تفصیل سے ذکر کرکے انسان کو اس طرف متوجہ فرمایا کہ ہم نے کس طرح تجھے پیدا فرمایا۔ کیا اس طرح کوئی کرسکتا ہے لیکن پھر بھی مشرکین اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں جیسا کہ ارشاد ہے۔ ” وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ “ (زخرف رکوع 7) اس سے معلوم ہوا کہ دلیل میں حصر ہے یعنی اس عجیب و غریب طریقہ سے میں نے انسان کو پیدا کیا ہے اس طرح اور کوئی نہیں کرسکتا۔ ” الانسان “ میں لام عہد کے لیے اور اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جو تمام نوع بشر کے جد امجد ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے مٹی کے خلاصے اور ست سے پیدا فرمایا۔
Top