Jawahir-ul-Quran - Al-Muminoon : 52
وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُوْنِ
وَاِنَّ : اور بیشک هٰذِهٖٓ : یہ اُمَّتُكُمْ : تمہاری امت اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک امت، امت واحدہ وَّاَنَا : اور میں رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاتَّقُوْنِ : پس مجھ سے ڈرو
اور یہ لوگ ہیں44 تمہارے دین کے سب ایک دین پر اور میں ہوں تمہارا رب سو مجھ سے ڈرتے رہو
44:۔ ” وَ اِنَّ ھٰذِہٖ الخ “ اس میں خطاب حسب سابق تمام رسولوں سے ہے یا خطاب عام ہے انبیاء (علیہم السلام) اور دوسرے سب لوگوں کو شامل ہے یا خاص امت محمدیہ سے خطاب ہے اس صورت میں یہ جملہ معترضہ ہوگا۔ والخطالب للرسل (علیہم السلام) علی نحو ما مر وقیل عام لھم ولغیرھم (روح ج 18 ص 40) ۔ ” اُمَّةٌ“ کے معنی ملت و شریعت کے ہیں۔ ای ملتکم و شریعتکم ایھا الرسل ” اُمَّةً وَّاحِدَةً “ ای ملۃ و شریعۃ متحدة (ابو السعود ج 6 ص 295) ۔ ” امة واحدۃ “ یہ ” اِنَّ ھٰذِهٖ اُمَّتُکُمْ “ کے مضمون سے حال ہے اور یہ گذشتہ تمام دلائل عقلیہ ونقلیہ سے متعلق ہے یعنی دلائل عقلیہ سے بھی ثابت ہوگیا اور انبیاء سابقین (علیہم السلام) کی دعوت (دلائل نقلیہ) سے بھی واضح ہوگیا کہ تمام انبیاء و رسل (علیہم السلام) کی ملت ایک تھی اور سب کی شریعتوں کے اصول متحد تھے اور وہ سارے کے سارے مسئلہ توحید پر متفق تھے۔ شرک اعتقادی اور شرک فعلی کی نفی سب کی دعوت میں شامل تھی اور ان سب کا متحدہ دعویٰ تھا کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں، اس کے سوا کوئی حاجت روا اور دور و نزدیک سے فریادیں سننے والا نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی نذر و منت کا مستحق ہے۔ ” وَاَنَا رَبُّکُمْ الخ “ یہ ” اِنَّ ھٰذِهٖ اُمَّتُکُمْ الخ “ پر معطوف ہے اور عطف تفسیری ہے یہ ملت واحدہ کی تفسیر ہے یعنی وہ ملت واحدہ یہ تھی کہ تم سب کا مالک اور کارساز میں ہوں اس لیے میرے عذاب سے ڈرو اور میرے سوا کسی کو کارساز نہ سمجھو اور نہ کسی کو حاجات و مشکلات میں مافوق الاسباب پکارو۔
Top