Jawahir-ul-Quran - Al-Muminoon : 71
وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ١ؕ بَلْ اَتَیْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَؕ
وَلَوِ : اور اگر اتَّبَعَ : پیروی کرتا الْحَقُّ : حق (اللہ) اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات لَفَسَدَتِ : البتہ درہم برہم ہوجاتا السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهِنَّ : ان کے درمیان بَلْ : بلکہ اَتَيْنٰهُمْ : ہم لائے ہیں ان کے پاس بِذِكْرِهِمْ : ان کی نصیحت فَهُمْ : پھر وہ عَنْ ذِكْرِهِمْ : اپنی نصیحت سے مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرنے والے ہیں
اور اگر60 سچا رب چلے ان کی خوشی پر تو خراب ہوجائیں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے کوئی نہیں61 ہم نے پہنچائی ہے ان کو ان کی نصیحت سو وہ اپنی نصیحت کو دھیان نہیں کرتے
60:۔ ” ولو اتبع الحق الخ “ یہ زجر ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین یہ چاہتے تھے کہ حق ان کی خواہشات کے تابع ہوجائے لیکن یہ ناممکن ہے اس لیے مطلب یہ ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حق ویسا ہی ہو جیسا کہ وہ کہتے ہیں یعنی ان کی خواہشات ہی حق اور نفس الامر کے مطابق ہوں مثلاً وہ کہتے ہمارے معبود کارساز ہیں۔ لات مناۃ عزی وغیرہ جہان میں متصرف ہیں۔ دعاء، پکار اور نذر و نیاز کے مستحق ہیں اور خدا کے نزدیک شفیع غالب ہیں ہمارے ان عقائد کو حق مان لیا جائے یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ” الشعراء یتبعہم الغاون “ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گمراہ لوگ شاعروں کے پیچھے چلتے ہیں لیکن مقصود یہ ہے کہ اکثر شاعر خود گمراہ ہوتے ہیں جیسا کہ اس کے بعد ارشاد ہے۔ ” الم تر انھم فی کل واد یھیمون وانھم یقولون ما لا یفعلون “ یہ دونوں باتیں خود شعراء کے بارے میں بیان کی گئی ہیں اس طرح یہاں دو باتیں بیان کرنا مقصود ہے اول یہ کہ شعراء خود غاوی اور گمراہ ہوتے ہیں دوم یہ کہ جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی گمراہ ہوتے ہیں۔ اس سے مومن شعراء مستثنی ہیں جن کی شاعری میں حق کی ترجمانی ہو۔ ” لفسدت السموت الخ اگر ان مشرکین کی خواہشات حق ہوتیں اور ان کی مرضی کے مطابق اس جہان کا نظم ونسق بہت سے معبودوں اور کارسازوں کے سپرد ہوتا تو یہ سارا نظام عالم درہم برہم ہوجاتا اور ایک لمحہ کیلئے بھی قائم نہ رہ سکتا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” لوکان فیھما اٰلہۃ الا اللہ لفسدتا “ (انبیاء رکوع 2) ای لو وافق الامر المطابق للوقاقع اھواءھم بان کان الشرک حقا لفسدت السموت والارض جسما قرر فی قولہ تعالیٰ لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا۔ (روح ج 18 ص 52) ۔ 61:۔ ” بل اتینھم الخ “ ذکر سے مراد قرآن ہے جو دنیا و آخرت میں ان کے لیے باعث شرف و فضیلت ہے یہ ان کی انتہائی شقاوت اور بد نصیبی ہے کہ جو قرآن ان کے لیے دنیوی اور اخروی برکات و خیرات کا سرچشمہ ہے وہ اس سے بھی اعراض کر رہے ہیں۔ یا ” ذکر “ بمعنی مذکور ہے یعنی وہی بات جسے وہ آپس میں ہمیشہ ذکر کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے وحدہ لا شریک ہونے کا اقرار جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مشرکین خود بھی تلبیہ حج میں کہا کرتے تھے۔ اللھم لبیک لا شریک لک الخ (سنن ابو داود) تو اس قرآن نے ان ہی کے قول واقرار کی مزید تشریح و تنویر کردی ہے کوئی نئی بات نہیں کہی تو اس سے کیوں اعراض کرتے ہیں جو ان کی اپنی بات کی وضاحت کر رہا ہے۔ قالہ الشیخ (رح) جیسا کہ آجکل کے مشرک بھی لا الہ الا اللہ پڑھتے ہیں لیکن اسی کلمہ توحید کی تشریح کر کے ان کے خود ساختہ کارسازوں کی نفی کی جائے تو آمادہ پیکار ہوجاتے ہیں۔
Top