Jawahir-ul-Quran - An-Noor : 4
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ
وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن عورتیں ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا : پھر وہ نہ لائیں بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاجْلِدُوْهُمْ : تو تم انہیں کوڑے مارو ثَمٰنِيْنَ : اسی جَلْدَةً : کوڑے وَّلَا تَقْبَلُوْا : اور تم نہ قبول کرو لَهُمْ : ان کی شَهَادَةً : گواہی اَبَدًا : کبھی وَاُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور جو لوگ6 عیب لگاتے ہیں حفاظت والیوں کو پھر نہ لائیں چار مرد شاہد تو مارو ان کو اسی درے اور نہ مانو ان کی کوئی گواہی کبھی اور وہ ہی لوگ ہیں نافرمان
6:۔ ” والذین یرمون الخ “ یہ تیسرا حکم ہے جب یہ بات واضح ہوگئی کہ مومنوں کی شان سے بعید ہے کہ وہ زنا ایسے برے فعل کا ارتکاب کریں تو اب اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت یا پارسا مرد پر زنا کی تہمت لگا دے تو اس سے چار گواہوں کا مطالبہ کیا جائے اگر وہ چار قابل اعتماد گواہ پیش نہ کرسکیں تو انہیں حد قذف یعنی تہمت لگانے کی سزا کے طور پر اسی درے مارے جائیں۔ ” ولا تقبلوا لھم الخ “ اور آئندہ کے لیے کسی معاملہ میں کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کی جائے۔ ” اولئک ھم الفسقون “ یہ تہمت لگانے والوں کے حال کا بیان ہے اور جملہ مستانفہ ہے کلام مستانف غیر داخل فی حیز جزاء الشرط کانہ حکایۃ حال ارامین عند اللہ بعد انقضاء الجملۃ الشرطیۃ (مدارک ج 3 ص 102) کذا فی البحر المحیط ج 6 ص 432 ۔ ” الا الذین قالوا الخ “ یہ ” الفسقون “ سے استثناء ہے یعنی اگر تہمت لگانے والوں نے توبہ کرلی اور اپنے کیے پر نادم ہوگئے اور آئندہ کے لیے اپنے اعمال کی اصلاح کرلی تو ان سے فسق کا نام اٹھ جائیگا ای رجعوا عما قالوا و ندموا علی ما تکلموا استثنا من الفاسقین کما صرح بہ اکثر الاصحاب۔ کون الاستثناء من الجملۃ الاخیرۃ مذھب الحنفٰہ فندھم بل الظاھر ھو ما یعضدہ کلام العرب وھو الرجوع الی الجملۃ التی تلیھا الخ (بحر ج 6 ص 433) جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے ان چار اشخاص (عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین) حضرت حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش پر حد قذف قائم فرمائی جنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے قذف میں حصہ لیا تھا کما فی التفسیر الکبیر ج 6 ص 353 و ارشاد العقل السلیم لابی السعود ج 6 ص 343) ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آپ نے کسی پر بھی حد قائم نہیں فرمائی (کما فی روح المعانی ج 8 ص 116) ۔
Top