Jawahir-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 12
قَالَ رَبِّ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِؕ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْٓ اَخَافُ : بیشک میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يُّكَذِّبُوْنِ : وہ مجھے جھٹلائیں گے
بولا اے رب8 میں ڈرتا ہوں کہ مجھ کو جھٹلائیں
8:۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تبلیغ رسالت کے سلسلے میں جو مشکلات نظر آئیں اور فرعون سے جو انہیں خدشہ تھا اس کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ سے معاون حاصل کرنا اور فرعون کے شر سے تحفظ طلب کرنا مقصود تھا۔ امر الٰہی کے امتثال میں توقف مقصود نہیں تھا۔ ولم یکن ھذا الالتماس من موسیٰ (علیہ السلام) توقفا فی الامتثال بل التماس عون فی تبلیغ الرسالۃ (مدارک ج 3 ص 137) ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میرے پروردگار ! مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے اور اس سے مجھے سخت ذہنی اذیت پہنچے گی طبیعت ملول و حزین ہوجائے گی اور دل میں انقباض پیدا ہوگا اور پھر میری تائید کرنے والا بھی کوئی نہ ہوگا اور میری زبان صاف نہ چل سکے گی اس لیے ہارون کے پاس پروانہ نبوت بھیج کر اسے معاون بنا دے کیونکہ اس کی زبان بھی صاف ہے اور وہ میری تائید بھی کرے گا زبان نہ چل سکنے کی وجہ یہ تھی کہ بچپن ہی سے آپ کی زبان میں رکاوٹ سی تھی عام گفتگو میں اگرچہ اس کا کوئی اثر ظاہر نہ تھا لیکن انہیں اندیشہ تھا کہ جب قوم کی تکذیب کی وجہ سے ان کی طبیعت میں انقباض رونما ہو تو کہیں ان کی زبان اس معمولی لکنت کی وجہ سے لڑکھڑا نہ جائے۔ التکذیب سبب لضیق القلب و ضیق القلب سبب لتعسر الکلام علی من یکون فی لسانہ حبسۃ الخ (کبیر ج 6 ص 508) ۔
Top