Jawahir-ul-Quran - An-Naml : 39
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ١ۚ وَ اِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ
قَالَ : کہا عِفْرِيْتٌ : ایک قوی ہیکل مِّنَ الْجِنِّ : جنات سے اَنَا اٰتِيْكَ : میں آپ کے پاس لے آؤں گا بِهٖ : اس کو قَبْلَ : اس سے قبل اَنْ تَقُوْمَ : کہ آپ کھڑے ہوں مِنْ مَّقَامِكَ : اپنی جگہ سے وَاِنِّىْ : اور بیشک میں عَلَيْهِ : اس پر لَقَوِيٌّ : البتہ قوت والا اَمِيْنٌ : امانت دار
بولا ایک دیو جنوں میں سے میں34 لائے دیتا ہوں وہ تجھ کو پہلے اس سے کہ تو اٹھے اپنی جگہ سے اور میں اس پر زور آور ہوں معتبر
34:۔ ایک بہت بڑے طاقت ور جن کہا آپ کے مجلس برخاست کرنے سے پہلے میں تخت آپ کے پاس لاسکتا ہوں۔ کیونکہ میں طاقتور بھی ہوں اور امین بھی ہوں اور اس کے زر و جواہر میں کسی قسم کی خیانت بھی نہیں کروں گا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو چونکہ اس سے بھی پہلے تخت درکار تھا اس لیے آپ نے اس کی بات کو کوئی وقعت نہ دی۔ قال الذی عندہ الخ۔ ایک شخص بولا جس کے پاس کتاب کا علم تھا میں آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے لاسکتا ہوں۔ الذی عندہ علم من الکتاب، سے یا تو آصف بن برخیا مراد ہے جو سلیمان (علیہ السلام) کا وزیر تھا اور اسم اعظم کا عامل تھا لیکن اس پر اعتراض لازم آتا ہے کہ اس طرح ایک امتی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے فضل و کمال میں ان سے بڑھ گیا اسی طرح آیت میں اس شخص کو علم الکتاب سے متصف کہا گیا ہے اور اس صفت میں لا محالہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) فائق تھے۔ ان سلیمان (علیہ السلام) کان اعرف بالکتاب منہ لانہ ھو النبی فکان صرف ھذا اللفظ الی سلیمان (علیہ السلام) اولی (الثانی) ان احضار العرش فی ذلک الساعۃ اللطیفۃ درجۃ عالیۃ فلو حصلت لاصف دون سلیمان لاقتضی ذلک تفضیل اصف علی سلیمان (علیہ السلام) وانہ غیر جائز (کبیر ج 6 ص 566) لیکن اگر بالفرض اس سے آصف بن برخیا ہی مراد ہو تو یہ ان کی کرامت ہوگی اور کرامت ولی کے اختیار و تصرف میں نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی قدرت اور اس کے تصرف سے ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے۔ اہل بدعت کہتے ہیں، انا اتیک بہ میں آصف نے لانے کی نسبت اپنی طرف کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام اس کے تصرف یہاں اسناد حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہے۔ یہ کرامت چونکہ آصف بن برخیا کے ہاتھ پر ظاہر ہوئی اور بظاہر لانے والا ہی تھا اس لیے لانے کی نسبت مجازًا اس کی طرف کردی گئی۔ بعض کا خیال ہے کہ اس سے خود سلیمان (علیہ السلام) مراد ہیں اس صورت میں یہ ان کا معجزہ ہوگا۔ امام نخعی فرماتے ہیں اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں (روح، کبیر، مدارک) حضرت شیخ قدس سرہ کے نزدیک یہی قول راجح ہے۔ بعض جہلا علم من الکتاب سے کالا علم نکالتے ہیں حالانکہ کا لاا علم سراسر کفر ہے کیونکہ اس میں غیر اللہ سے استعانت ہوتی ہے اس لیے یہ بالکل بےاصل اور صریح غلط بلکہ کفر ہے۔
Top