Jawahir-ul-Quran - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب وَقَعَ الْقَوْلُ : واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر اَخْرَجْنَا : ہم نکالیں گے لَهُمْ : ان کے لیے دَآبَّةً : ایک جانور مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے تُكَلِّمُهُمْ : وہ ان سے باتیں کرے گا اَنَّ النَّاسَ : کیونکہ لوگ كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیت پر لَا يُوْقِنُوْنَ : یقین نہ کرتے
اور جب69 پڑچکے گی ان پر بات نکالیں گے ہم ان کے آگے ایک جانور زمین سے ان سے باتیں کرے گا اس واسطے کہ لوگ ہماری نشانیوں کا یقین نہیں کرتے تھے
69:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ قول سے قیام ساعت کا وعدہ اور وقوع قول سے قیامت کا قرب مراد ہے (مدارک وروح) یعنی آخر زمانے میں قرب قیامت کی علامت کے طور پر ہم زمین سے ایک عجیب و غریب جانور پیدا کریں گے جو لوگوں سے صاف صاف باتیں کرے گا۔ ان الناس الخ اس سے پہلے حرف جر مقدر ہے ای تکلمھم بانھم کانوا لا یتیقنون بایات اللہ تعالیٰ الناطقۃ بمجئ الساعۃ (روح ج 20 ص 24) ۔ یعنی وہ جانور لوگوں سے کہے گا کہ لوگ ان نشانیوں کو نہیں مانتے جو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لیے قائم فرمائی ہیں۔ اور حضرت شیخ (رح) تعالیٰ نے فرمایا۔ یہاں دابۃ سے کوئی خاص دابہ مراد نہیں بلکہ عام ہے۔ القول سے وعدہ عذاب مراد ہے یعنی جب کسی قوم پر انکار توحید کی وجہ سے عذاب الٰہی کا وقت آجائے تو اللہ تعالیٰ بطور اعجاز جانوروں کو قوت گویائی عطا فرما کر ان سے دین حق کی سچائی پر شہادت دلوا دیتا ہے۔ جیسا کہ خودحضور ﷺ کے زمانے میں ایک گواہ نے آپ کی صداقت کی گواہی دی تھی۔ اس قسم کے اور بھی کئی واقعات گذر چکے ہیں۔ جب ایسی معجزانہ شہادتوں کے بعد بھی لوگ دین حق کو نہ مانیں تو ان پر اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ تکلمھم یعنی وہ دابہ (جانور) دین حق کی سچائی اور دوسرے ادیان کے بطلان کی گواہی دیتا ہے۔ تکلمھم ببطلان الادیان کلہا سوی دین الاسلام (مدارک ج 3 ص 170) ۔ ان الناس کانوا الخ یہ ماقبل کی علت ہوگی۔ یعنی ہم دابہ اس لیے نکالیں گے کہ لوگ ہماری آیتوں کو نہیں مانتے۔ دابہ کا معجزانہ کلام ان کو ایمان کی طرف مائل اور راغب کرے گا۔
Top