Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور تم کس طرح کافر ہوتے ہو اور تم پر پڑھی جاتی ہیں آیتیں اللہ کی اور تم میں اس کا رسول ہے145 اور جو کوئی مضبوط پکڑے اللہ کو تو اس کو ہدایت ہوئی سیدھے راستہ کی146
145 یہ مومنین کے لیے زجر ہے کہ دیکھو ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ تم پر اللہ کی آیتیں بھی نازل ہورہی ہوں۔ جن میں توحید کے تمام پہلوؤں اور اسلام کے دوسرے حکام کو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے اور اللہ کی آیتوں کا صحیح مفہوم اور منشا بیان کرنے کے لیے اور دل میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے تم میں اللہ کا رسول بھی موجود ہو اور پھر تم اہل کتاب کے جھانسے میں آکر دین اسلام سے پھر جاؤ۔ ایک شبہ بریلوی صاحبان اس آیت سے آنحضرت ﷺ کے حاضر وناظر ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ کیونکہ وَفیْکُمْ رَسُوْلُه (یعنی اللہ کا رسول تم میں موجود ہے) میں خطاب تمام مسلمانوں سے ہے تو اس سے معلوم ہوا کہحضور ﷺ آج بھی ہر جگہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں موجود اور حاضر وناظر ہیں۔ جواب : اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا سیاق وسباق بتا رہا ہے کہ اس کے مخاطب حضرات صحابہ کرام ؓ ہیں۔ جن کو اللہ نے براہ راست یہ احکام دئیے ساری امت مخاطب نہیں اور اگر فرض کرلیا جائے کہ خطاب ساری امت سے ہے۔ تو رسول کے ان میں موجود ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت۔ آپ کی نبوت کے دلائل اور آپ کا اسوہ حسنہ اور آپ نے امت میں جو قرآن چھوڑا ہے۔ وہ ان میں موجود ہے اس لیے اس آیت کا بریلویوں کے اس عقیدہ باطلہ یعنیحضور ﷺ کے حاضر وناظر ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ چناچہ علامہ قرطبی نے امام زجاج سے نقل کیا ہے۔ یجوز ان یکون ھذا الخطاب لاصحاب محمد خاصۃ لان رسول اللہ ﷺ کان فیھم وھم یشاھدونہ ویجوز ان یکون ھذا الخطاب لجمیع الامۃ لان اٰثارہ وعلاماتہ والقراٰن الذی اوتی فینا مکان النبی ﷺ فینا وان لم نشاھدہ (قرطبی ص 156) اور علامہ سید محمود آلوسی حنفی لکھتے ہیں والاکثرون علی تخصیص ھذا الخطاب باصحاب رسول اللہ ﷺ او الاوس والخزرج منھم ومنھم من جعلہ عاما لسائر المؤمنین و جمیع الامۃ وعلیہ معنی کونہ فمنھم ان اثارہ وشواھد نبوتہ فیھم لانھا باقیۃ حتی یاتی امرا اللہ (روح ج 4 ص 16) ۔ 146 اعتصام سے مراد ہے اللہ پر ایمان لانا اور اس کے دین پر مضبوطی ہے قائم رہنا۔ المراد بالاعتصام باللہ الایمان بہ سبحانہ والتمسک بدینہ کما قالہ ابن جریج (روح ج 4 ص 17) یہاں اہل کتاب کی طرف سے ڈالے جانیوالے شبہات کے اثر بد سے محفوظ رہنے کا اکسیری نسخہ بیان فرما دیا اور وہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے اور اس کے دین پر مضبوطی سے قائم ہوجائے تو وہ کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا۔ اور وہی شبہات سے اس کا ایمان متزلزل ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اعتصام سے اللہ پر بھروسہ اور توکل کرنا مراد ہو۔ جیسا کہ ابو العالیہ سے منقول ہے۔ المراد منہ الثقہ باللہ تعالیٰ والتوکل علیہ والالتجاء اللہ (روح) تو مطلب یہ ہوگا۔ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے اور اسی کو اپنا ملجا وماوی سمجھے وہ اسے تمام شبہات سے محفوظ رکھے گا۔ ومن یجعل ربہ ملجا ومفزعا عنہ الشبہ یحفظ عن الشبہ (مدارک ص 135 ج 1)
Top