Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور چاہیے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم کرتی رہے اچھے کاموں کا اور منع کریں برائی سے151 اور وہی پہنچے اپنی مراد کو152
151 لفظ خَیْر عام ہے جو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر دونوں کو شامل ہے اس لیے تعمیم کے بعد تخصیص ان دونوں کاموں کی اہمیت اور مزید فضیلت کے اظہار کے لیے ہے۔ معروف ہر وہ کام ہے جو کتاب وسنت کے مطابق ہو اور منکر وہ کام ہے جو ان کے مخالف ہو۔ المعروف ما وافق الکتاب والسنۃ الی مخاطبۃ المؤمنین امرھم اولا بالتقویٰ والایمان ثم امرھم بالسعی فی القاء الغیر فی الایمان والطاعۃ (کبیر ص 26 ج 2) اور مطلب یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا جو سلسلہ تمہارے اندر جاری ہے اسے قائم رکھو یہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اب یہ سلسلہ شروع کرو کیونکہ یہ سلسہ تو پہلے سے موجود تھا۔ بقرینة کنتم خیر امۃ حضرت شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں۔ مسلمانوں پر فرض ہے ان کی ایک جماعتقائم رہے جہاد کرنے کو اور دین کی باتوں کا خیال رکھنے کو تاکہ دین کے خلاف کوئی کچھ نہ کرے۔ جو اس پر قائم رہیں۔ وہی کامیاب ہیں اور یہ کہ کوئی کسی سے تعرض نہ کرے۔ موسیٰ بدین خود اور عیسیٰ بدین خود یہ راہ مسلمانوں کی نہیں۔ 152 یہاں حصر فلاح کامل کے اعتبار سے ہے نہ کہ فلاح مطلق کے اعتبار سے ای ھم الاخصاء بالفلاح الکامل (مدارک ص 136 ج 1) ۔
Top