Jawahir-ul-Quran - Al-Ahzaab : 112
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ
ضُرِبَتْ : چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الذِّلَّةُ : ذلت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں اِلَّا : سوائے بِحَبْلٍ : اس (عہد) مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَحَبْلٍ : اور اس (عہد) مِّنَ النَّاسِ : لوگوں سے وَبَآءُوْ : وہ لوٹے بِغَضَبٍ : غضب کے ساتھ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے (کے) وَضُرِبَتْ : اور چسپاں کردی گئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْمَسْكَنَةُ : محتاجی ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّھُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے تھے الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق ذٰلِكَ : یہ بِمَا : اس لیے عَصَوْا : انہوں نے نافرمانی کی وَّكَانُوْا : اور تھے يَعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھ جاتے
ماری گئی ان پر ذلت جہاں دیکھے جائیں سوائے دستاویز اللہ کے اور دستاویز لوگوں کے167 اور کمایا انہوں نے غصہ اللہ کا اور لازم کردی گئی ان کے اوپر حاجت مندی168 یہ اس واسطے کہ وہ انکار کرتے رہے ہیں اللہ کی آیتوں سے اور قتل کرتے رہے ہیں پیغمبروں کو ناحق169 یہ اس واسطے کہ نافرمانی کی انہوں نے اور حد سے نکل گئے170
167 حَبل کے معنی عہد اور ذمہ کے ہیں۔ والحبل العھد والذمۃ ( مدارک ص 137 ج 1) حَبْلٌ مِّنَ اللہِ سے مراد عقد ذمہ اور اداء جزیہ ہے اور حَبْلٌ مِّنَ النَّاسِ سے لوگوں کی طرف سے امان نفس اور حفاظت مال وغیرہ کا عہد مراد ہے۔ ای بذمۃ من اللہ وھو عقد الذمۃ لھم وضرب الجزیۃ علیھم والزامھم احکام الملۃ وحبل من الناس ای امان منھم لھم کما فی المھادن والمعاھد الخ (ابن کثیر ص 396 ج 1) حاصل یہ کہ یہودیوں پر ذلت ورسوائی مسلط کردی گئی ہے۔ اور ہر جگہ ان کا مال اور ان کی جان بےوقعت ہیں اور سوائے دو صورتوں کے نہ ان کا مال وجان محفوظ ہے۔ اور نہ ہی ان کو عزت اور وقار کی زندگی نصیب ہے۔ اول یہ کہ وہ کسی مسلم حکومت کے ذمی بن کر رہیں ان کو جزیہ ادا کریں اور اس طرح وہ حقوق ذمہ حاصل کرلیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ دوم یہ کہ کسی دوسری قوم سے دوستی اور نصرت ومدد کا کوئی معاہدہ کرلیں اور اس طرح ان کو زندگی میں کچھ چین نصیب ہوجائے ان دونوں صورتوں کے سوا دنیا میں نہ ان کی کوئی خود مختار حکومت قائم کے تحت امریکہ کے سہارے جی رہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے۔ اسرائیلی حکومت کا وجود مغرب کے ان سیاسی جوئے بازوں کے اپنے ذاتی مفادات کا نتیجہ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ 168 یہ ان کی بداعمالیوں کی سزا ہے جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ یعنی ان بد اعمالیوں کی وجہ سے وہ غضب الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں اور دنیا میں ان پر غضب الٰہی کا ظہور ابدی ذلت اور رسوائی کی صورت میں ہوچکا ہے وہ جہاں کہیں بھی ہیں ذلیل و خوار اور دوسروں کے محتاج ہیں۔ مَسْکَنَة سے اکثر مفسرین نے جزیہ مراد لیا ہے جو ذلت ورسوائی کی علامت ہے۔ والاکثرون حملوا المسکنة علی الجزیۃ وھو قول الحسن الخ (کبیر ص 43 ج 3) اور بعض نے اس لفظ کو فقر اور تنگدستی پر محمول کیا ہے یہودیوں میں جو مالدار ہیں وہ معدودے چند ہیں اور ان کی اکثریت فقرا اور تنگدستی میں مبتلا ہے اور جو مالدار ہیں وہ بھی اپنا غنا ظاہر نہیں کرتے فھم فی الغالب مساکین وقلما یوجد یھودی بظھر الغنی (روح ص 29 ج 4) ۔ 169 ذَالِک سے مذکورہ سزاؤں کی طرف اشارہ ہے اور آیات سے تورات کی وہ آیتیں مراد ہیں۔ جن میں مسئلہ توحید کا بیان تھا اور جو حضرت رسول اکرم ﷺ کی صداقت پر دلالت کرتی تھیں (روح ص 29 ج 4) یعنی ان کو مذکورہ سزائیں اس لیے دی گئیں کہ ایک تو وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے دوم اس لیے کہ وہ اللہ کی توحید بیان کرنے والے پیغمبروں کو بیدردی سے قتل کیا کرتے تھے۔ 170 ذَالَِ سے کفر اور قتل انبیاء کی طرف اشارہ ہے مچلب یہ کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار اور انبیاء (علیہم السلام) کو قتل اس لیے کیا کرتے تھے کہ خدا کی لگاتار نافرمانی اور اس کی مسلسل حدود شکنی کی وجہ سے ان کے دل سیا اور سخت ہوچکے تھے۔ کفر وعصیان ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی۔ اور ضدوعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر جباریت ثبت ہوچکی تھی اس لیے ایمان و اطاعت کی تو ان سے توقع ہی نہیں تھی۔ ان سے اگر صادر ہوسکتے تھے۔ تو کفر وعصیان اور قتل انبیاء ایسے برے افعال اور سنگین جرائم ہی صادر ہوسکتے تھے۔ لَیْسُوْا سَوَاءً ۔ حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ جب قوموں پر خدا کا غضب آتا ہے تو ان کا ہر ہر فرد بدکار نہیں ہوتا بلکہ ان میں بعض نیکو کار بھی ہوتے ہیں اور ان سنگریزوں کے ڈھیروں میں کوئی کوئی سچا موتی بھی ہوتا ہے یہی حال اہل کتاب کا تھا۔ جہاں ان کے عالموں، پیروں، درویشوں اور سجادہ نشینوں کی اکثریت دنیا دار، غلط کار اور حق پوش تھی وہاں ان میں خال خال خدا سے ڈرنے والے حق کہنے اور توحید بیان کرنیوالے عالم بھی موجود تھے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے یہود کے باطل پرست اور شرک پسند عالموں کی شرارتوں اور ان کی سزاؤں کا ذکر فرمایا اب یہاں سے یہود کے ان عالموں اور پیروں کا ذکر شروع ہوتا ہے جنہوں نے دین توحید یعنی اسلام قبول کرلیا تھا اور پھر توحید کی تبلیغ و اشاعت بھی کرتے تھے اور خود بھی توحید پر قائم تھے چناچہ فرمایا کہ اہل کتاب سب یکساں نہیں ہیں بلکہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے قبول حق کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اور دین توحید (اسلام) کو قبول کر کے نہ صرف خود اس پر قائم ہیں۔ بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتے ہیں اور اس کی تبلیغ و اشاعت میں سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں۔
Top