Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 117
مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْهَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَاَهْلَكَتْهُ١ؕ وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
مَثَلُ : مثال مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِيْ : میں ھٰذِهِ : اس الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا كَمَثَلِ : ایسی۔ جیسے رِيْحٍ : ہوا فِيْھَا : اس میں صِرٌّ : پالا اَصَابَتْ : وہ جا لگے حَرْثَ : کھیتی قَوْمٍ : قوم ظَلَمُوْٓا : انہوں نے ظلم کیا اَنْفُسَھُمْ : جانیں اپنی فَاَھْلَكَتْهُ : پھر اس کو ہلاک کردے وَمَا ظَلَمَھُمُ : اور ظلم نہیں کیا ان پر اللّٰهُ : اللہ وَلٰكِنْ : بلکہ اَنْفُسَھُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے ہیں
جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس دنیا کی زندگی میں اس کی مثال جیسے ایک ہوا کہ اس میں ہو پالا جا لگی کھیتی کو اس قوم کی کہ انہوں نے اپنے حق میں برا کیا تھا پھر اس کو نابود کرگئی176 اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں177
176 صِرٌّ کے معنی شدید سردی کے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے الصر البرد الشدید (قرطبی ص 177 ج 4، روح ص 36 ج 4، کبیر ص 51 ج 3) اور ظَلَمُوْ اَنْفُسَھُمْ میں ظلم سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے شرک اور کفر وعصیان کے ذریعے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور ہلاکت و خسران کے مستحق ہوئے۔ ظلموا انفسھم بالکفر والمعاصی ومنع حق اللہ تعالیٰ فیہ (معالم و خازن ص 342 ج 1) حضرت شیخ کی تفسیر کے مطابق انفاق سے یہاں یہودیوں کے پیروں کا مریدوں پر اور مریدوں کا پیروں پر خرچ کرنا مراد ہے۔ نفقۃ الیہود علی علمائھم (جامع البیان ص 59) پہلے گذر چکا ہے کہ آخرت میں کفار کو ان کے مال ومنال سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا تو یہاں ایک شبہہ پیدا ہوسکتا تھا۔ کہ اگر کفار دنیا میں اپنی دولت نیک کاموں میں خرچ کر ڈالیں تو شاید آخرت میں اس کا انہیں ثواب مل جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس شبہہ کا ازالہ فرمادیا کہ کافروں کا دنیا میں صدقہ و خیرات کرنا اور نیک کاموں میں اپنی دولت کو لگانا اجر آخرت کے اعتبار سے بالکل بےسود ہے آخرت میں اس کا انہیں ثواب مل جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس شبہہ کا ازالہ فرما دیا کہ کافروں کا دنیا میں صدقہ و خیرات کرنا اور نیک کاموں میں اپنی دولت کو لگانااجر آخرت کے اعتبار سے بالکل بےسود ہے۔ آخرت میں انہیں اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ کیونکہ اعمال صالحہ کے عند اللہ مقبول اور باعث اجر وثواب ہونے کے لیے ایمان اور اخلاص توحید شرط ہے اور کفار اس سے محروم ہیں اس لیے ان کے تمام اعمال باطل اور رائیگاں ہیں۔ کافروں کی خیرات کے بےسود ہونے کو اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت ہی آسان، مثال کے ذریعے واضح فرمایا ہے جس طرح کافر اور مشرک قوم کی سرسبز و شاداب کھیتی ہو۔ لیکن انہوں نے اسے برف اور پالے سے محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا ہو اور وہ اس کی شادابی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ اور اس کی پیداوار کے بارے میں بہت پر امید ہوں کہ اچانک ہوا کا طوفان آجائے جس میں شدت کی سردی اور برف اور پالا ہو اور اس لہلہاتی ہوئی کھیتی کو بالکلیہ تباہ وبرباد کر کے رکھ دے اور کھیتی والے کف افسوس ملتے رہ جائیں اور ان کی اس کھیتی سے غلطہ اور دیگر منافع حاصل کرنے کی تمام امیدیں خاک میں مل جائیں بالکل یہی حال کفار کی خیرات کا ہے جس طرح ان کھیتی والوں کو اس کے نفع کی بڑی امید تھی مگر طوفان بادوبر نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اسی طرح کافر دنیا میں رفاہ عامہ کے کاموں میں اور دیگر کارہائے خیر میں اپنی دولت خرچ کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اگر واقعی قیامت آنیوالی ہے تو انہیں اس کا اجر وثواب ملے گا۔ لیکن کفر وشرک کی وجہ سے ان کے تمام اعمال باطل اور رائیگاں ہیں۔ مثل نفقۃ الکافرین فی بطلانھا وذھابہا و عدم منفع تھا کمثل زرع اصابہ ریح باردۃ او نار فاحرقتہ واھلکتہ فلم ینتفع اصحابہ بشیئ بعد ماکانوا یرجون فائدتہ ونفعہ (قرطبی ص 178 ج 4) مثال میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی کھیتی کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ کافروں کی خیرات کی ایسی چیز سے تشبیہ مقصود تھی جو بالکلیہ تباہ وبرباد ہوچکی ہو اور یہ بات صرف کافروں کی کھیتی ہی میں پائی جاسکتی ہے کیونکہ دنیا میں تو وہ اس کے منافع سے محروم ہو ہی گئے آخرت میں بھی انہیں اس کا کوئی صلہ نہیں ملے گا۔ لیکن مسلمان کے دنیا میں مالی نقصان کا معاملہ اس سے جدا گانہ ہے دنیا میں مالی نقصان کی وجہ سے اگرچہ وہ اس کے فوائد ومنافع سے محروم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس نقصان کے عوض آخرت میں اجر وثواب کی صورت میں اسے اس کا صلہ ضرور ملے گا (کبیر ص 52 ج 3) ۔ 177 ان کے نفقات وصدقات کو اللہ تعالیٰ نے باطل اور مردود کر کے ان پر ظلم نہیں کیا یہ ان کی اپنی ہی بےراہ روی کا نتیجہ ہے کیونکہ انہوں نے ایمان وطاعت اور توحید خالص سے اعراض کیا۔ جو صدقات اور دیگر اعمال کے قبول ہونے کی شرط اولین ہے اور شرک و طغیان اور کفر وعیصیان کی راہ اختیار کرلی جو غضب الٰہی کی طرف لے جاتی ہے۔ لان عملھم لم یکن للہ وھم بالوحدانیۃ دائنون والمرہ متبعون ولرسلہ مصدقون بل کان ذالک منھم وھم بہ مشرکون ولامرہ مخالفون ولرسلہ مکذبون بعد تقدم منہ الیھم انہ لا یقبل عملا من عامل الا مع اخلاص التوحید لہ الخ (ابن جریر ص 37 ج 4) ۔
Top