Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جب صبح کو نکلا تو اپنے گھر سے بٹھلانے لگا مسلمانوں کو لڑائی کے ٹھکانوں پر186 اور اللہ سب کچھ جانتا ہے
186 ۔ اب یہاں سے جنگ احد کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ والجمہور علی انھا غزوۃ احد (قرطبی ص 184 ج 4) ۔ حضرت شیخ (رح) نے فرمایا اس کا تعلق اِنْ تَصْبِرُوْا الخ سے ہے یعنی اگر تم ہمت و استقلال، صبر و استقامت سے کام لو گے تو کافر تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ آگے صبر وتقویٰ کے نتائج اور اس کے لیے دو نمونوں کا بیان ہے۔ جنگ بدر میں مشرکین کو مسلمانوں کے ہاتھوں انتہائی ذلت ورسوائی کے ساتھ شکست اٹھانا پڑی۔ ان کے ستر سردار اور جنگجو بہادر قتل ہوگئے اور ستر گرفتار ہو کر مسلمانوں کے قیدی ہوئے مالی نقصان اس کے علاوہ تھا اور ذلت ورسوائی اتنی ہوئی کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اب وہ شکست خوردہ مشرکین انتقامی جنگ کی تیاری کرنے لگے۔ چناچہ واقعہ بدر سے ایک سال بعد 30 ھ؁ کے اواخر میں جنگی تیاریاں مکمل کرلیں۔ اب ان کی تعداد تین ہزار تھی جن میں سات سو زرہ پوش دو سو گھڑ سوار اور باقی شتر سوار تھے۔ اور ان کا کوئی لڑاکا خالی ہاتھ نہ تھا۔ مشرکین چونکہ جوش انتقام میں دیوانے ہوئے جا رہے تھے اس لیے تمام قبیلوں کے سرداروں نے بھی زرہ پوش دو سو گھڑ سوار اور باقی شتر سوار تھے۔ اور ان کا کوئی لڑاکا خالی ہاتھ نہ تھا۔ مشرکین چونکہ جوش انتقام میں دیوانے ہوئے جارہے تھے اس لیے تمام قبیلوں کے سرداروں نے بھی جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ حد یہ مشرکین کی عورتوں نے بھی اس جنگ میں شرکت کی جو باجوں اور ڈھولکوں کیساتھ مقتولین بدر کے مرثیے گا گا کر اپنے جوانوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا رہی تھیں اور مسلمانوں کے ساز و سامان کا یہ حال تھا کہ مجاہدین کی تعداد صرف ایک ہزار تھی اور پوری فوج میں صرف دو گھوڑے تھے اور تمام مجاہدین کے پاس تلواریں بھی نہیں تھیں اور پھر عین اس وقت جب کہ دشمن سامنے آیا اور مسلمان ابھی نماز صبح ہی میں مصروف تھے۔ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین اپنے تین سو ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدان جنگ سے واپس آگیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب مسلمان مجاہدین کی تعداد صرف سات سو رہ گئی۔ آنحضرت ﷺ نے جنگ سے پہلے تمام مجاہدین کی صفیں مناسب جنگی ترتیب کے مطابق بنائیں اور مختلف فوجی دستوں کو مختلف مورچوں پر متعین فرمایا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی صف بندی کی حالت کا ذکر فرمایا ہے۔ وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔
Top