Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 122
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا١ۙ وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَا١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اِذْ : جب ھَمَّتْ : ارادہ کیا طَّآئِفَتٰنِ : دو گروہ مِنْكُمْ : تم سے اَنْ : کہ تَفْشَلَا : ہمت ہاردیں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَلِيُّهُمَا : ان کا مددگار وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن
جب قصد کیا دو فرقوں نے تم میں سے کہ نامردی کریں اور اللہ مددگار تھا ان کا187 اور اللہ ہی پر چاہیے بھروسہ کریں مسلمان188
187 پہلا نمونہ یہ اِذْ عَدَوْتَ سے بدل ہے۔ اور طائفتان سے انصار کے دو قبیلے مراد ہیں۔ یعنی قبیلہ خزرج کے بنو سلمہ اور قبیلہ اوس کے بنو حارثہ والطائفتان بنو سلمۃ من الخزرج وبنو حارثۃ من الاوس (قرطبی ص 185 ج 4) اور ھَمٌّ پختہ ارادہ اور حدیث نفس یعنی وسوسہ دونوں میں مستعمل ہے۔ لیکن یہاں وسوسہ اور حدیث نفس مراد ہے والظاھر ان ھذا لھم لم یکن عن عزم۔ ب کان مجر حدیث نفس و وسوسۃ (روح ص 43 ج 4) اور فَشْلٌ کے معنی بزدلی اور کم ہمتی دکھانے ہیں۔ ہوا یوں کہ جب عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین اپنے تین سو منافق ساتھیوں کو لے کر میدان جنگ سے یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ جب ہماری بات نہیں مانی گئی تو ہم کیوں ان کا ساتھ دیں اور مفت میں اپنی جانیں ضائع کریں (عبداللہ بن ابی نے بھیحضور ﷺ کو مشورہ دیا تھا کہ جنگ کے لیے مدینہ سے باہر نہ جائیں بلکہ شہر ہی میں رہیں اگر مشرکین نے شہر پر حملہ کیا تو یہیں ان سے جنگ کریں گے) تو مسلمانوں کے ان دونوں گروہوں کو قلت سامان اور قلت عدد کی بنا پر خیال گزرا کہ وہ بھی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹ جائیں۔ غرضیکہ ان کی بزدلی اور کم ہمتی دکھانے کی وجہ شک ونفاق یا ضعف ایمان نہیں تھا۔ بلکہ مادی وسائل کی کمی کی وجہ سے ان کے ارادے میں ضعف آگیا۔ وذالک انہ انما کان ذالک منھما عن ضعف ووھن اصابھما غیر شک فی دینھما (سیرت ابن ہشام ص 112 ج 3) لیکن ابھی یہ ارادہ وسوہ کی حد سے آگے نہیں بڑھا تھا اور نہ ہی انہوں نے اس پر عمل کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دستگیری فرمائی اور ان کی ہمتیں پھر سے مضبوط کردیں۔ اور اپنی مدد اور نصرت سے ان کو تھام لیا اور دونوں قبیلے نئے جوش شجاعت کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی لغزش سے درگذر فرمایا۔ یہ کم ہمتی کے اظہار کا ارادہ وقتی طور پر صبر وتقوی سے ذہول کا نتیجہ تھا۔ ادھر خدا پر بھروسہ اور تقوی سے ذہن مادی وسائل کی قلت و کثرت کی طرف منتقل ہوا۔ ادھر فوراً ہی اس کا برا نتیجہ سامنے آگیا۔ 188 یہاں اللہ تعالیٰ نے تمام ایمان والوں کو نصیحت فرمائی کہ انہیں صرف خدا کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ اور ظاہری سازوسامان کو اسباب عادیہ کی حد تک اختیار کرنا چاہیے اور ان کو کامیابی اور ناکامی میں موثر حقیقی نہیں سمجھنا چاہیے بعض جاہل صوفی ترک اسباب کا نام توکل رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ نظریہ سراسر اسلام کے خلاف ہے اور خودحضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کے بھی مخالف ہے۔ قال سھل من قال ان التوکل یکون بترک السبب فقد طعن فی سنۃ رسول اللہ ﷺ (قرطبی ص 189 ج 4) توکل کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ پر بھروسہ کرے اور یقین رکھے کہ اللہ کی قضا پوری ہو کر رہے گی اور ہر کام کے لیے اللہ نے تکوینی طور پر جو اسباب عادیہ مقرر فرمائے ہیں ان کو عمل میں لائے اور ان کو محض عادی وسائل خیال کرے اور موثر حقیقی صرف خدا کو جانے۔
Top