Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا
: اور نہ
تَحْسَبَنَّ
: ہرگز خیال کرو
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
قُتِلُوْا
: مارے گئے
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ
: راستہ
اللّٰهِ
: اللہ
اَمْوَاتًا
: مردہ (جمع)
بَلْ
: بلکہ
اَحْيَآءٌ
: زندہ (جمع)
عِنْدَ
: پاس
رَبِّھِمْ
: اپنا رب
يُرْزَقُوْنَ
: وہ رزق دئیے جاتے ہیں
اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں مردے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے
260
260
وَلَا تَحْسَبَنَّ سے لَا یَضِیعُ اَجْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ تک شہداء کے لیے اخروی بشارت ہے پہلے منافقین کی اس بات کا رد فرمایا کہ حذر و احتیاط کے ذریعے موت ٹل سکتی ہے اب یہاں فرمایا کہ جس قتل سے تم ڈر رہے ہو وہ تو ڈرنے کی چیز نہیں وہ تو نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے اور دین ودنیا کی بہت بڑی سعادت ہے جن لوگوں کو یہ شہادت کی موت نصیب ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں تو قتل ہوجانے کے بعد برزخ میں ان کو ایک امتیازی حیات حاصل ہوتی ہے جو عامۃ المسلمین کو حاصل نہیں ہوتی اس لیے شہادت کی موت تو ایسی چیز نہیں کہ اس سے بچنے اور بھاگنے کی تدبیریں سوچی جائیں بلکہ اسے تو حاصل کرنے کی تمنا ہر ایک کے دل میں ہونی چاہئے۔ القتل الذی یحذرونہ ویحذرون منہ لیس مما یحذر بل ھو من اجل المطالب التی یتنافس فیھا المتنافسون (روح ج
4
ص
121
) ۔ تحقیق حیات شہداء۔ حیات شہداء کے بارے میں قرآن مجید کی دو آیتیں ہیں ایک تو یہی زیر تفسیر آیت اور دوسری آیت سورة بقرہ رکوع
19
میں گذر چکی ہے یہاں فرمایا کہ شہداء کو مرد سے مت سمجھو اور وہاں فرمایا کہ ان کو مردہ مت کہو۔ حالانکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شہداء قتل کردئیے جاتے ہیں اور ان کی روحیں ان کے ابدان عنصریہ سے پرواز کر جاتی ہیں اور ان کے ابدان سے اس طرح جدا ہوجاتی ہیں کہ ان سے ان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ جیسا کہ علامہ بیضاوی کا قول آگے آرہا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ شہداء کرام کی دنیوی زندگی تو اللہ کی راہ میں قتل ہوجانے اور روح کے بدن سے نکل جانے کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے اس لیے ظاہر ہے کہ شہادت کے بعد جو ان کو زندگی اور حیات حاصل ہوتی ہے وہ دنیوی نہیں ہوتی بلکہ اس سے مختلف ہوتی ہے۔ جب وہ دنیا میں زندہ تھے تو ان کی زندگی بھی دنیوی تھی یعنی روح اور بدن دونوں کے ملاپ سے وہ زندہ تھے لیکن موت سے دنیوی زندگی ختم ہوگئی اور برزخ کا زمانہ شروع ہوگیا اس لیے اب اس زندگی کو برزخی زندگی کہا جائے گا اور یہ زندگی بلا مشارکت بدن عنصری صرف روح کے لیے ہوگی یہ معاملہ چونکہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ برزخ عالم غیب کی چیز ہے اس لیے اس برزخی حیات کی کیفیت کے بارے میں عقل وفکر، رائے اور قیاس سے کچھ کہنے کا کسی کو کوئی حق نہیں اور نہ ہی اس معاملہ میں نصوص کتاب وسنت سے جو کچھ ثابت ہو اس سے تجاوز کرنا جائز ہے۔ علامہ سید محمود آلوسی سورة بقرہ میں وَلٰکِنْ لَّاتَشْعَرُوْنَ کے کے تحت فرماتے ہیں۔ ای لا تحسون ولا تدرکون ما حالھم بالمشاعر لانھا من احوال البرزخ التی لا یطلع علیھا ولا طیر للعلم بھا الا بالوحی (روح ج
2
ص
20
) ۔ حیات شہداء کی کیفیت کی طرف قرآن مجید میں تو چند اجمالی اشارات ہی ہیں۔ تفصیل نہیں ہے مثلاً قرآن مجید میں اس طرف اشارہ ہے کہ قتل کے بعد شہداء کو جو حیات ملتی ہے۔ وہ دنیوی نہیں بلکہ برزخی اور عالم غیب کی ایک حالت ہے۔ اَحْیَاء ٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ سے اسی طرف اشارہ ہے وہ اپنے مہربان رب کے پاس اور عالم غیب میں زندہ ہیں۔ علامہ خازن لکھتے ہیں۔ انھم احیاء عنداللہ تعالیٰ فی عالم الغیب لانھم صاروا الی الاخرۃ (تفسیر خازن ج
1
ص
109
) قرآن مجید میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ شہداء عالم برزخ میں کھاتے پیتے بھی ہیں۔ حیات شہداء کی تفصیلی کیفیت سب سے عمدہ اور صحیح ترین وہی ہے جو خود صاحب وحی جناب نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے حضرت رسول خدا ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا کہ یارسول اللہ وہ کس طرح زندہ ہیں ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ وہ قتل ہوچکے ہیں تو آنحضرت ﷺ نے جواب میں فرمایا وہ اس طرح زندہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو سبز پرندوں کے جسم عطا فرما کر ان کو جنت میں آزاد چھوڑ دیا ہے۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں آتے جاتے اور سیر کرتے ہیں۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں۔ وقال اخرون ارواحھم فی اجواف طیر خضر وانھم یرزقون فی الجنۃ ویاکلون ویتنعمونوھذا ھو الصحیح من الاقوال لن ما صح بہ النقل فھو الواقع (قرطبی ج
4
ص
270
) اولہ علامہ ابو السعود حنفی امام واحدی سے ناقل ہیں۔ الاصح فی حیاۃ الشہداء ماروی عن النبی ﷺ من ان ارواحم فی اجواف طیور خضر وانھم یرزقون ویاکلون یتنعمون (ابو السعود ج
1
ص
138
) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔ مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود سے آیت وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قَتَلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتاً الایۃ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے بھی رسول خدا ﷺ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا ارواحھم فی جوف طیر خضر لھا قنادیل معلقۃ بالعرش تسرح من الجنۃ حیث شاءت ثم تاوی الی تلک القنادیل الحدیث (صحیح مسلم ج
2
ص
135
، جامع ترمذی ج
2
ص
126
، ابن ماجہ ص
201
، تفسیر ابن جریر ج
4
ص
106
، ص
107
) اسی طرح حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ان رسول اللہ ﷺ قال ان ارواح الشھداء فی طیر خضر تعلق من ثمر الجنۃ او شجر الجنۃ (جامع ترمذی ج
1
ص
197
، ابن ماجہ ص
104
، ص
316
، نسائی ج
1
ص
292
، موطا امام مالک ص
84
، مسند احمد ج
6
ص
386
) اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں قال رسول اللہ ﷺ لما اصیب اخوانکم باحد جعل اللہ ارواحھم فی اجواف طیر خضر تروانھا والجنۃ وتاکل من ثمارھا واوی الی قنادیل من ذھب فی ظل العرش الحدیث (مستدرک حاکم ج
2
ص
88
، ص
297
تفسیر ابن جریرج
4
ص
106
، مسند احمد ج
1
ص
266
، ابو داوٗد ج
1
ص
348
) اسی طرح حضرت ابو سعید خدری ؓ سے بھی اسی مضمون کی ایک مرفوع حدیث مروی ہے ملاحظہ ہو۔ درمنثور ج
2
ص
96
۔ ان حدیثوں کے الفاظ میں اگرچہ خفیف سا اختلاف ہے لیکن ماحصل سب کا وہی ہے جو پہلے بیان کیا جاچکا ہے ان حدیثوں میں حضرت رسول خدا ﷺ نے نہایت وضاحت سے شہداء کی برزخی زندگی کی حقیقت بیان فرما دی ہے صحابہ کرام ؓ اور تابعین سے بھی یہی کچھ منقول ہے اور اسی کو محققین مفسرین نے راجح اور صحیح قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، کعب الاحبار، عکرمہ، سدی کبیر، ابو العالیہ، قتادۃ، ربیع وغیرہم کے اقوال کے لیے ملاحظہ ہو۔ تفسیر ابن جریر ج
2
ص
23
ج
4
ص
106
، ص
107
و تفسیر در منثور ج
1
ص
155
، ج
2
ص
96
۔ حاصل کلام یہ کہ عالم برزخ میں شہداء کی حیات محض روحانی اور برزخی ہے جسمانی نہیں ان کے ابدان طیوری اجسام مثالی ہیں۔ نہ کہ عنصری کیونکہ شہداء کے عنصری ابدان توقبروں میں مدفون ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ عالم برزخ میں شہداء کی حیات محض روحانی اور برزخی ہے جسمانی نہیں اور ان کے ابدان قبروں میں ہیں۔ لیکن ان کی ارواح طیوری قالبوں میں نعیم جنت سے متمتع ہورہی ہیں۔ علامہ بیضاوی سورة بقرہ میں فرماتے ہیں۔ وَلٰکِنْ لَّاتَشْعُرُوْن ما حالاھم وھو تنبیہ علی ان حیوتھم لیست بالجسد ولا من جنس ما یحس بہ من الحیوانات وامناھی امر لایدرک بالعقل بل بالوحی (تفسیر بیضاوی ج
1
ص
201
) لیکن تم نہیں جانتے کہ وہ کس حال میں ہیں اور یہ اس امر پر تنبیہ ہے کہ ان (شہداء) کی حیات جسمانی نہیں اور نہ زندوں کی مانند ظاہر حواس سے محسوس قسم کی زندگی ہے اور نہ اس کا ادراک عقل سے ہوسکتا ہے بلکہ اس کی کیفیت کا ادراک صرف وحی سے ہوسکتا ہے اور مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی فرماتے ہیں حیات شہداء بمعنی تعلق ارواح بابدانست برائے استیفائی لذاتی کہ موقوف برآلات بدنیست نہ تعلق ارواح باابدان سابقہ ونہ بقا کی روح بادراک و شعور الخ (عزیزی ص
685
) یعنی حیات شہداء کا مطلب یہ ہے کہ وہ لذات حاصل کرنے کیلئے جن کا حصول آلات پر موقوف ہے ارواح ابدان مثالیہ سے متعلق ہوجائیں یہ مطلب نہیں کہ ارواح سابقہ (عنصری) ابدان سے متعلق ہوجائیں اور نہ یہ کہ روح کا ادراک و شعور باقی رہے۔ حیات انبیاء (علیہم السلام) اس دنیائے آب وگل سے رحلت وانتقال کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کے لیے ایک ہی مقرر فرمائی ہے اور وہ ہے موت اور اس سے کسی فرد بشر کو مفر نہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (انبیاء رکوع
3
) یعنی ہر جی موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ خواہ پیغمبر ہو یا غیر پیغمبر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوا خدا کے تمام پیغمبر موت نوش فرما چکے ہیں (حضرات ادریس الیاس اور خضر (علیہم السلام) کے بارے میں محقق اور صحیح مذہب یہی ہے کہ وہ فوت ہوچکے ہیں) چناچہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے۔ اَمْ کُنْتُمْ شَھَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ (بقرہ ع
16
) کیا تم اس وقت موجود تھے جب حضرت یعقوب پر موت کا وقت آیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا۔ حَتّٰی اِذَا ھَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللہُ مِنْ بَعْدِهٖ رَسُوْلاً (مومن رکوع
4
) یہاں تک کہ جب وہ فوت ہوگئے تم کہنے لگے کہ اب تو اللہ تعالیٰ کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد ہے۔ فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتُ مَادَلَّھُمْ عَلیٰ مَوْتِهٖ اِلَّا دَابَّةُ الْاَرْضِ تَاکُلُ مِنْسَاَتَہٗ (سبا رکوع
2
) پس جب ہم نے اس (سلیمان) پر موت کا حکم جاری کردیا تو ان (جنون) کو اس کی موت کا پتہ کسی نے نہ دیا مگر گھن کے کیڑے نے جو اس کے عصا کو کھاتا تھا اور خود جناب نبی کریم ﷺ کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ (زمر رکوع
3
) آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔ علاوہ ازیں آنحضرت ﷺ کی موت پر تمام صحابہ کرام ؓ کا اجماع بھی ہوچکا ہے جیسا کہ صحیح حدیثوں میں موجود ہے کہ جبحضور ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت عمر ؓ اس صدمہ جانکاہ کی شدت کو برداشت نہ کرسکے اور ازخود دل گر فتہ ہو کر اعلان کرنے لگے خبردار کوئی یہ مت کہے کہ حضور فوت ہوگئے ہیں۔ ورنہ میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے صورت حال دیکھی تو آپ نے تمام صحابہ کرام کے سامنے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا اس کا اقتباس ملاحظہ ہو۔ من کان یعبد محمدا فان محمدا قد مات ومن کان یعبداللہ فان اللہ حی لا یموت وقال اِنَّکَ مَّیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ (صحیح بخاری ج
1
ص
517
) تم میں سے جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ آپ تو فوت ہوگئے اور آپ پر موت وارد ہوچکی اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا سو اللہ زندہ جاوید ہے اور یہ آیت تب بھی پڑھی بیشک آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب خطبہ دیا تو صحابہ ؓ میں سے کسی نے بھی ان کی کسی بات پر انکار نہیں کیا اور حضرت عمر نے بھی تسلیم کرلیا کہ واقعی آپ وفات پا چکے ہیں چناچہ تمام صحابہ کرام نے یہی سمجھ کر کہ آپ وفات پا چکے ہیں آپ کے جسد اطہر کو قبر مبارک میں دفن کیا الغرض موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) اور تمام بنی آدم اسی دروازے سے گذر کر عالم برزخ میں پہنچے اور جو باقی ہیں وہ بھی اسی دروازے سے گذریں گے۔ اور موت کے معنی ہیں روح کا بدن عنصری سے نکل جانا اور اس سے جدا ہوجانا۔ امام راغب اصفہانی اس آیت میں موت کا مفہوم اس طرح بیان فرماتے ہیں وقولہ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ فعبارۃ عن زوال القوۃ الحیوانیۃ وبانۃ الروح عن الجسد (مفردات ص
494
) یعنی موت قوت حیات کے زائل ہوجانے اور روح کے بدن سے جدا ہوجانے کا نام ہے۔ علامہ ابو عبداللہ قرطبی لکھتے ہیں۔ واجل الموت ھو الوقت الذی فی معلومہ سبحانہ ان روح الحی تفارق جسدہ (قرطبی ج
4
ص
226
) اَجَلْ موت اس وقت کا نام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق جاندار کی روح اس کے بدن سے جدا ہوگی علامہ سیوطی فرماتے ہیں قال العلماء الموت لیس بعدم محض ولا فناء صرف وانما ھو انقطاع تعلق الروح بالبدن ومفارقۃ وحیلولۃ بینھما وتبدل حال وانتقال من دار الی دار (شرح الصدور ص
5
وبشری الکئیب ص
15
،
16
) علماء نے کہا ہے کہ موت عدم محض اور فناء صرف کا نام نہیں بلکہ موت بدن سے تعلق روح کے منقطع ہوجانے، روح اور بدن میں جدائی اور پردہ حائل ہوجانے اور ایک دار (دنیا) سے دوسرے دار (عالم برزخ) کی طرف منتقل ہونے سے عبارت ہے اور علامہ سید محمود آلوسی حنفی فرماتے ہیں۔ الاماتۃ بمعنی اخراج الروح وسلب الحیاۃ (روح ج
3
ص
21
) اماتت کے معنی ہیں روح کا نکال لینا اور زندگی کا سلب کرلینا۔ اور پھر موت کی یہ کیفیت مذکورہ بالا مفہوم کے ساتھ سب کے لیے یکساں ہے اور تمام بنی آدم انبیاء (علیہم السلام) ہوں یا شہداء اور عامۃ المسلمین پر موت اخراج روح از بدن اور ابانت روح از جسد ہی کے طریق پر وارد ہوتی ہے البتہ اعزاز واکرام اور تحقیر وتذلیل کا فرق ضرور ہوتا ہے انبیاء علیہم السلام، شہداء اور دیگر مومنین سے قبض روح کا معاملہ علی حسب المراتب اعزاز واکرام سے کیا جاتا ہے اور کفار ومشرکین سے تذلیل و اہانت کے ساتھ شہداء کے بارے میں تو پہلے گذر چکا ہے کہ ان کی روحیں ان کے ابدان عنصریہ سے نکال کر پرندوں کے مثالی قالبوں میں داخل کردی جاتی ہیں اسی طرح انبیاء (علیہم السلام) کی ارواح طیبہ بھی ان کے ابدان طاہرہ سے نکال کر جدا کرلی جاتی ہیں۔ چناچہ خود آنحضرت ﷺ کی وفات بھی اللہ تعالیٰ عادت مستمرہ اور دستور متعارف کے مطابق اسی طرح واقع ہوئی کہ آپ کی روح طیبہ وطاہرہ آپ کے بدن مبارک سے نکالی گئی جیسا کہ خود آپ کا ارشاد ہے۔ ان جمیع الانبیاء قبض ارواحم ملک الموت وھو الذی سیقبض روحی۔ (قرطبی ج
4
ص
276
) یعنی تمام انبیاء (علیہم السلام) کی روحیں ملک الموت نے قبض کیں اور وہی میری روح کو بھی قبض کرے گا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ فقبضہ اللہ وان راسہ لبین سحری وتحری (صحیح بخاری ج
1
) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض فرمائی اس وقت آپ سر مبارک میرے سینے اور حلق کے درمیان تھا اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ فی روایۃ ھمام عن ہشام بھذا الاسناد عند احمد نحوہ وزاد فلما خرتب نفسہ لم اجد ریحا قط اطیب منھا (فتح الباری ج
8
ص
102
) اس روایت کو امام احمد نے بھی اس اسناد کے ساتھ ہشام سے بواسطہ ہمام روایت کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ جب آپ کی روح مبارک (بدن سے) نکلی تو ایسی خوشبو آئی کہ میں نے اس سے عمدہ خوشبو کبھی نہیں سونگھی۔ یہ خوشبو آپ کی روح طیبہ کی تھی۔ اور حضرت ابو بردہ ؓ فرماتے ہیں۔ اخرجت الینا عائشۃ کساء وازارا غلیظاً فقالت قبض روح النبی ﷺ فی ھذین (صحیح بخاری ج
2
ص
865
) حضرت عائشہ نے ہمیں ایک چادر اور ایک موٹا تہبند دکھایا اور کہا کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی روح طیبیہ ان دو کپڑوں میں قبض ہوئی۔ باقی رہی یہ بات کہ انبیاء (علیہم السلام) کی ارواح ان کے ابدان سے نکلنے کے بعد کہاں رہتی ہیں اور ان کا مستقر کہاں ہے تو اس بارے میں صحیح مسلک یہ ہے کہ عالم برزخ میں ان کی ارواح کو ان کے عنصری بدنوں کے ہم شکل اور مماثل مشک وکافور کے مثالی اجسام عطا کیے جاتے ہیں اور ان کا قام ومستقر جنت کا اعلی ترین اور سب سے اونچادرجہ اعلیٰ علیین ہے ویسے جنت میں وہ جہاں چاہیں آتے جاتے اور جنت کے میوے تناول فرماتے ہیں۔ چناچہ علامہ سیوطی اور علامہ سید محمود آلوسی امام نسفی سے ناقل ہیں۔ ارواح الانبیاء تخرج من جسدھا وتصیر مثل جسدھا مثل المسک والکافور وتکون فی الجنۃ تاکل وتشرب وتتنعم الخ (شرح الصدور ص
105
، بشری الکئیب ص
134
، روح المعانی ج
15
ص
162
تفسیر مظہری ج
10
ص
224
یعنی انبیاء (علیہم السلام) کی ارواح ان کے بدنوں سے نکل کر ان کے مماثل مشک وکافور کے جسموں میں متشکل ہوجاتی ہیں اور جنت میں کھاتی پیتی ہیں۔ اسی طرح علامہ ابن القیم اور حافظ ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں الانبیاء (علیہم السلام) فلا شک ان ارواحھم عند اللہ فی اعلیٰ علیین وقد ثبت فی الصحیح ان اخر کلمۃ تکلف بھا رسول اللہ ﷺ عند موتہ انہ قال اللھم الرفیق الاعلی (روح ج
1
ص
161
، شرح الصدور ص
104
) ان روایتوں اور عبارتوں سے تین باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ شہداء اور دیگر اموت کی طرح انبیاء (علیہم السلام) کی ارواح کا مستقر اعلی علیین ہے نہ کہ ان کے ابدان کیونکہ ان کے ابدان مبارکہ تو قبور ارضی میں مدفون ہوتے ہیں لیکن دیگر اموت کے برعکس ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت اور شرف عطا فرمایا ہے کہ ان کے ابدان قبروں میں بالکل اسی طرح صحیح سالم رہیں گے جس طرح رکھے گئے تھے اور مٹی ان کو نہیں کھائے گی ان کے ابدان کو محفوظ رکھنے کی اللہ کی طرف سے ضمانت ہے۔ لیکن غیر انبیاء (علیہم السلام) خواہ شہداء ہوں یا عامۃ المسلمین ان کے لیے ایسی کوئی ضمانت نہیں اور اگر کسی صدیق وشہید کا یا کسی اور برگزیدہ خدا کا بدن قبر میں محفوظ رہے اور مٹی اسے نہ کھائے تو یہ بھی کوئی بعید نہیں۔ بلکہ عین ممکن ہے۔ باقی رہا ارواح کا تعلق ابدان کے ساتھ تو اس کے متعلق بتحقیق یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت صحیحہ سے تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اور نہ ہی صحابہ کرام، تابعین اتباع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے ارشادات واقوال میں تعلق روح بجسم عنصری کا کوئی نفیاً واثباتاً ذکر اذکار ہے۔ برزخ میں حیات انبیاء (علیہم السلام) اور حیات شہداء کرام کی جو کیفیت آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہے وہ اوپر مذکور ہوچکی ہے۔ قرون ثلثہ میں یہ اسی طرح منقول ہو کر نیچے تک چلی آئی ہے لیکن تعلق کا قصہ کسی نے نہیں چیڑھا۔ البتہ چوتھی صدی کے بعد سے شارحین حدیث نے بعض حدیثوں میں تطبیق کے سلسلے میں تعلق روح بجسد عنصری کا مختلف عنوانات سے ذکر کیا ہے کسی نے اتصال معنوی سے کسی نے اشراق سے کسی نے اشراف سے اور کسی نے مثل تعلق صاحب خانہ بخانہ وعاشق بمعشوق وغیرہ الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ البتہ اس پر سب متفق ہیں کہ یہ تعلق ایسا نہیں جیسا کہ حیات دنیا میں تھا بلکہ یہ تعلق بےکیف ہے اور اس کی حقیقت وکیفیت اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں اس لیے عالم برزخ میں تعلق ارواح بابدان عنصریہ کے بارے میں سکوت سب سے احوط مسلک ہے کیونکہ قرون ثلثہ مشہود لہا بالخیر میں تعلق کا کوئی ذکر اذکار نہیں لیکن اگر کوئی شخص غیر معلوم الکیفیت تعلق کا اثبات کرتا ہے تو وہ بھی قابل ملامت نہیں کیوں متقدمین میں ایک کثیر تعداد مختلف عنوانات کے ساتھ اس کی قائل ہے لیکن اس تعلق کے باوجود ان کے مدفون فی القبور ابدان میں کسی قسم کی حرکت یا جنبش پیدا نہیں ہوتی اور نہ قیامت سے پہلے ان کے یہ ابدان قبروں سے باہر نکلیں گے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل اور تسلیم شدہ ہے۔ خلاصۃ الکلام یہ کہ برزخ میں انبیاء (علیہم السلام) کو جو حیات حاصل ہے وہ ہمارے ادراک و حواس سے بالا ہے۔ لیکن حیات شہداء سے بہت بلند اور اعلیٰ ہے اور پھر حضرت سید الانبیاء ﷺ کی حیات تمام انبیاء (علیہم السلام) کی نسبت ارفع واعلیٰ اور اتم واکمل ہے۔ والمراد بتلک الحیاۃ نوع من الحیاۃ غیر معقول لنا وھی فوق حیاۃ شھداء بکثیر وحیاۃ نبینا ﷺ اکمل واتم من حیاۃ سائرھم علیھم السلام (روح ج
22
ص
38
) ایک اشکال یہاں ایک اشکال ہے جس نے بڑے بڑوں کو متحیر وسرگردان کر رکھا ہے اور جسے حل کرنے کے لیے بڑے بڑے شہسواران قلم دوڑا چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب انبیاء (علیہم السلام) کی ارواح کا مقام ومستقر اعلیٰ علیین ہے اور وہ نہ ان کے عنصری ابدان میں موجود ہیں اور نہ قبروں کے قرب و جوار میں اور ان کے ابدان قبروں میں مدفون و محفوظ ہیں اور ارواح کا ابدان میں اعادہ نفخہ ثانیہ پر ہوگا اور اس وقت وہ قبروں سے نکلیں گے اس سے پہلے نہیں۔ لیکن صحیح حدیثوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ نے شب معراج میں مختلف آسمانوں پر کئی انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقات کی اور بیت المقدس میں انبیاء علیہم کی امامت بھی فرمائی۔ نیز حدیث میں ہے آپ نے فرمایا کہ میں نے کثیب احمر کے قریب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے دیکھا نیز آپ نے فرمایا میں نے یونس (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ اونٹنی پر سوار تلبیہ پڑ رہے ہیں اور وادی میں اتر رہے ہیں اور بعض کاملین نے حالت بیداری میںحضور ﷺ اور حضرت خضر (علیہ السلام) کو دیکھا۔ بعینہ یہی اشکال غیر انبیاء کے بارے میں ہے۔ کیونکہ بعض کاملین کو بھی بیداری کی حالت میں دیکھا گیا ہے تو ان مشاہدات اور منصوصات سے بظاہر یہ قاعدہ ٹوٹتا ہوا نظر آرہا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اوردیگر اموات کے ابدان عنصریہ میں نہ قبروں میں جنبش ہوتی ہے اور نہ ہی قیامت سے پہلے وہ قبروں سے باہر نکلیں گے۔ اشکال کا حل : اس اشکال کے کئی حل پیش کیے گئے ہیں لیکن بیشتر توجیہات دل کو مطمئن نہیں کرسکتیں بلکہ ان سے مزید پیچ در پیچ اشکالات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ صرف ایک حل ایسا ہے جس سے یہ اشکال نہایت عمدہ طریقہ سے حل ہوجاتا ہے اور کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔ محققین علماء اور صوفیا نے بھی اسے ترجیح دی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طرح حیات دنیا میں ارواح ابدان عنصریہ کے ذریعے متحرک ہوتی اور تمام اعمال وتصرفات بجا لاتی ہیں۔ اسی طرح انبیاء (علیہم السلام) اور بعض کاملین کی ارواح وفات کے بعد عالم برزخ میں مثالی اور برزخی اجسام کے ذریعے حرکت کرتی اور نماز تلاوت قرآن اور کئی دوسرے اعمال بجالاتی ہیں اگر کسی کامل بزرگ کو حالت بیداری میں کسی پیغمبر یا کسی فوت شدہ ولی کی زیارت بشکل انسانی نصیب ہوجائے تو یہ شکل اس کی مثالی شکل ہے اور اس کی روح مثالی جسم میں متشکل ہو کر اس کے سامنے آئی ہے اور اس کا عنصری جسم قبر میں بلا حرکت و جنبش موجود ہوگا۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں وعندی ان الحیاۃ فی البرزخ ثابۃ لکل من یموت من شہید وغیرہ وان الارواح وان کانت جو اھر قائمۃ بانفسہا مغایرۃ لما یحس بہ من البدن لکن لا مانع من تعلقھا ببدن برزخی مغایر لھذا البدن الکثیف (روح ج
2
ص
21
) یعنی میرے نزدیک برزخ میں ہر میت کو حیات حاصل ہے اور ارواح اگرچہ جواہر ہیں اور قائم بانفسہا ہیں اور ابدان محسوسہ کے مغایر ہیں لیکن اس میں کوئی ممانعت نہیں کہ ارواح کا تعلق برزخی جسم سے ہوجائے جو اس عنصری بدن کے مغایر ہو اور دوسری جگہ فرماتے ہیں۔ الارواح المقدسۃ قد تظھر متشکلۃ ویجتمع بھا الکاملون من العباد وقد صح انہ ﷺ رای مرسی (علیہ السلام) قائما یصلی فی قبرہ وراہ فی السماء وراہ یطوف بالبیت (روح ج
15
ص
327
) پاکیزہ روحیں کبھی متشکل ہو کر ظاہر ہوتی ہیں اور کامل بندے ان سے ملاقات کرتے ہیں اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت نبی اکرم ﷺ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کھڑے ہو کر قبر میں نماز پڑھتے دیکھا۔ اور شب معراج میں۔ ان کو آسمان پر بھی دیکھا اور انہیں خانہ کعبہ کا طواف کرتے بھی دیکھا اور بیت المقدس میں انبیاء (علیہم السلام) کی امامت کے بارے میں آپ کا اپنا ارشاد ہے جس کی امام ابو یعلی نے مسند میں امام طبرانی نے کبیر میں تخریج کی ہے۔ قال مثل لی النبیون فصیلت بھم (بیضاوی ج
3
ص
112
ومظہری ج
5
ص
399
)حضور ﷺ نے فرمایا کہ انبیاء (علیہم السلام) میرے لیے مثالی اجسام میں حاضر کیے گئے اور میں نے انہیں نماز پڑھائی علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں۔ لکن تمام ھذا التوجیہ ان یقال ان المنظور الیہھی ارواحم فلعلھا مثلت لہ ﷺ فی الدنیا کما مثلت لہ لیلۃ الاسراء واما اجسادھم فھی فی القبور قال ابن المنیر وغیرہ یجعل اللہ لروحہ مثالا فیری فی الیقظۃ کما یری فی النوم (فتح الملہم ج
1
ص
330
) یعنی حضرت نبی کریم ﷺ کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قبر میں نماز پڑھتے اور حضرت یونس (علیہ السلام) کو حج کرتے دیکھنے کی پوری توجیہ یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے دیکھا وہ ان کی ارواح تھیں تو شاید دنیا میں آپ کے لیے ان کو مثالی شکلیں دی گئی ہوں جیسا کہ شب معراج میں انبیاء (علیہم السلام) کو آپ نے مثالی اجسام میں دیکھا لیکن ان کے ابدان عنصریہ قبروں میں موجود تھے اور وہ قبروں سے نہیں نکلے، ابن منیر وغیرہ نے کہا ہے کہ اللہ میت کی روح کو مثالی جسم عطا فرماتا ہے اور وہ جس طرح خواب میں دکھائی دیتا ہے اسی طرح بیداری میں بھی نظر آتا ہے۔ اور علامیہ سیوطی لکھتے ہیں وکذالک رویۃ النبی ﷺ الانبیاء الانبیاء فی لیلۃ الاسراء فی السموات الصحیح انہ رای فیھا الارواح فی مثل الجسام (شرح الصدور ص
100
) اور اسی طرح آنحضرت ﷺ کا شب معراج میں انبیاء (علیہم السلام) کو آسمانوں میں دیکھنا تو اس کے متعلق صحیح بات یہ ہے کہ وہاں آپ نے ان کی ارواح کو دیکھا تھا۔ جو مثالی اجسام میں متمثل تھیں۔ اسی طرح اگر کسی خوش بخت انسان کو بیداری میں آنحضرت ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوجائے تو اکثر صوفیہ یہ فرماتے ہیں کہ اس نے آپ کے جسم مثالی کی زیارت کی ہے نہ جسم عنصری کی چناچہ امام غزالی فرماتے ہیں لیس المراد انہ یری جسمہ وبدنہ بل مثالا لہ صار ذالک المثال الۃ یتاوی بھا المعنی الذی فی نفسہ (روح المعانی ج
22
ص
37
) اور شیخ علاء الدین قونوی فرماتے ہیں۔ وسادہ صوفیہ قدس اللہ اسرارہم عالمی متوسط در عالم اجساد وارواح اثبات کردہ اند کہ آنرا عالم مثال گویندا لطف از عالم اجساد واکثف از عالم ارواح و ظہور ارواح در صور مختلفہ متبنی بر ان ساختہ و ظہور جبریل (علیہ السلام) بصورت وحیہ کلبی وتمثل اور مریم را بصورت بشر سوی الخلق ازان عالم میدارند وبناء علیہ جائز بود کہ موسیٰ (علیہ السلام) باوجود استقرار در آسمان ششم بشج وکر مثالی در قبر متمثل باشد وآنحضرت اوراد ہر دو مکان مشاہدہ فرمودہ وبعد از اثبات عالم مثال جواب از مسائل کثیرہ بیرون آید واشکالات بسیار مثل بیان سعت جنت ورویت او و در عرض حائط مثلا منحل گردانتی کلام الشیخ (جذب القلوب ص
209
) صوفیائے کرام عالم اجساد اور عالم ارواح کے درمیان ایک اور عالم تسلیم کرتے ہیں جسے وہ عالم مثال کہتے ہیں جو عالم اجساد سے زیادہ لطیف ہے لیکن عالم ارواح کے مقابلہ میں کثیف ہے اور ارواح کا مختلف شکلوں میں ظاہر ہونا ان کے نزدیک اسی عالم مثال کے وجود پر مبنی ہے اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کا حضرت دحیہ کلبی کی شکل میں اور حضرت مریم (علیہا السلام) کے سامنے بشر کی صورت میں متمثل ہونا اسی قبیل سے ہے اور اس بنا پر یہ جائز ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چھٹے آسمان پر موجود ہونے کے ساتھ ساتھ پیکر مثالی کے ساتھ قبر میں بھی متمثل (ہوکر نماز پڑھ رہے) ہوں اور آنحضرت ﷺ نے (شب معراج میں) ان کو دونوں جگہ دیکھا ہو اور عالم مثال کا وجود تسلیم کرلینے سے بہت سے مسائل کا جواب نکل آتا ہے اور بہت سے اشکالات حل ہوجاتے ہیں مثلاً جنت کی وسعت کا بیان اور آنحضرت ﷺ کا نماز میں جنت کو دیوار کی عرض میں دیکھنا وغیرہ (یہ سب عالم مثال کی چیزیں ہیں) ۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی مسئلہ حیات انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں طویل بحث وتمحیص کے بعد اصل حقیقت کی اس طرح ترجمانی فرماتے ہیں “ و حقیقت آنست کہ تحقیق مسئلہ حیات انبیاء (علیہم السلام) وغیر ایشان موقوف بمعرفت این عالم است وتحقیق دیدن آنحضرت موسیٰ ویونس را علیہ وعلیہما السلام بمعرفت زمان ومکان روحانیات وتمییز وفرق آنہا از زمان ومکان جسمانیات چناچہ محققین صوفیہ کردہ انددست دہد الخ ” (جذب القلوب ص
209
) اور حقیقت یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور غیر انبیاء کی عالم برزخ میں حیات کا مسئلہ اس عالم (عالم مثال) کی پہچان پر منحصر ہے اور آنحضرت ﷺ کے حضرت موسیٰ اور یونس (علیہما السلام) کو دیکھنے کی تحقیق روحانیات کے زمان ومکان کی معرفت اور محققین صوفیہ کے بیان کے مطابق جسمانیات کے زمان ومکان سے ان کے امتیاز ہی سے پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے۔ اسی طرح حضرت خضر (علیہ السلام) کو کئی بزرگوں نے عالم بیداری میں دیکھا ہے تو چونکہ قول محقق اور مسلک صحیح کے مطابق ان کی وفات ہوچکی ہے اس لیے صوفیائے کرام میں سے بھی بعض کاملین نے فرمایا ہے کہ خضر (علیہ السلام) کی رویت مثالی اور عالم مثال کی چیز ہے جسد عنصری کے ساتھ نہیں جیسا کہ حضرت شیخ صدر الدین اسحاق قونوی اپنی کتاب تبصرۃ المبتدی وتذکرۃ المنتہی میں فرماتے ہیں۔ ان وجود الخضر (علیہ السلام) فی عالم المثال (روح ج
15
ص
326
) ۔
Top