Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے حکم مانا اللہ کا اور رسول ﷺ کا بعد اس کے کہ پہنچ چکے تھے ان کو زخم جو ان میں نیک ہیں اور پرہیزگار ان کو ثواب بڑا ہے264
264 اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا سے ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ تک مومنوں کے لیے اخروی بشارت ہے اور اس کے ضمن میں کفار کے لیے تخویف اخروی کی طرف اشارہ ہے الذین مبتدا اور لِلَّذِیْنَ تا اَجْرٌ عَظِیْمٌ اس کی خبر ہے اور اِسْتَجَابُوا بمعنی اجابوا ای اطاعوا اللہ والرسول بامتثال الاوامر (روح ج 4 ص 124) یعنی انہوں نے اللہ کے رسول کے احکام کی تعمیل کی۔ اَلْقَرْحُ (زخم) سے وہ چوٹیں اور جراحتیں مراد ہیں جو مسلمانوں کو جنگ احد میں آئیں۔ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُم وَاتَّقَوْا جملہ خبر مقدم ہے اور اَجْرٌ عَظِیْمٌ مرکب توصیفی مبتدا مؤخر ہے۔ اور جملہ اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا کی خبر ہے کما مر۔ اَحْسَنُوْا۔ انہوں نے پورے اخلاص باطن سے احکام رسول اللہ ﷺ کی تعمیل کی وَاتَّقَوْا اور مخلصانہ اطاعت کے بعد معصیت اور نافرمانی سے اجتناب کیا۔ احسنوا فیما اتوا بہ من طاعۃ الرسول ﷺ وَاتقوا ارتکاب شیء من المنھیات بعد ذالک (کبیر ج 3 ص 145) ۔ مِنْھُمْ میں مِنْ بعضیہ نہیں بلکہ بیانیہ ہے کیونکہ جنہوں نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی وہ سارے کے سارے محسن اور متقی تھے اس لیے یہ دو صفتیں بیان کرنے سے علت مدح کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ یعنی اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا اس لیے لائق مدح ہیں کہ وہ صفت احسان اور اتقاء سے متصف ہیں۔ و ذھب غیر واحد الی انھا لبیان۔ المقصود من الجمع بین الوصفین المدح والتعلیل لا التقیید لان المستجیبین کلھم محسنون ومتقون (روح ج 4 ص 124) لان الذین استجابوا للہ والرسول قد احسنوا کلھم و التقوا لا بعضھم (مدارک ج ص 151، بحر ج 3 ص 117) ۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے زخموں سے چور ہونے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے کیونکہ وہ سارے کے سارے محسن اور متقی ہیں اس آیت میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو جنگ احد سے دوسرے ہی دن پیش آیا تھا۔ جب ابو سفیان اپنے شکست خوردہ ساتھیوں سمیت جنگ احد سے واپس جارہے تھے تو مقام روحاء میں پہنچ کر ان کو خیال آیا کہ ہم نے غلطی کی ہے ہمیں نہیں آنا چاہئے تھا ہم نے ان کے ستر آدمی تو مار ڈالے تھے۔ بقیہ کا بھی صفایا کرنا تھا۔ چناچہ وہ اپنی واپسی پر نادم ہوئے اور دوبارہ واپس جا کر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت نبی کریم ﷺ کو بھی کسی طرح ان کے ارادے کی اطلاع مل گئی تو آپ نے بھی کافروں کو مرعوب کرنے کے لیے انہیں راستے ہی میں جا لینے کا ارادہ فرما لیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرمادیا کہ میرے ساتھ صرف وہی مجاہدین جائیں گے جو کل معرکہ احد میں شریک تھے چناچہ آپ ستر آدمیوں کی جمعیت کے ساتھ کافروں کی طرف روانہ ہوئے جب آپ مقام حمراء الاسد پہنچے۔ جو مدینہ سے صرف تین میل کے فاصلہ پر ہے تو ابو سفیان اور اس کے لشکر کو اس بات کا علم ہوگیا جس سے ان کے دلوں پر لشکر اسلام کا رعب چھا گیا اور وہ بد دل ہو کر واپس ہوگئے (کبیر، روح، بحر، ابن کثیر، خازن وغیرہ) ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان ستر مجاہدین کو جو گذشتہ دن کی جنگ کے زخم خوردہ تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے خدا اور رسول کے احکام کی تعمیل کی اورحضور ﷺ کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ محسن اور متقی فرمایا اور ان کو آخرت میں اجر عظیم کی خوشخبری سنائی۔
Top