Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 175
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ١۪ فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں ذٰلِكُمُ : یہ تمہیں الشَّيْطٰنُ : شیطان يُخَوِّفُ : ڈراتا ہے اَوْلِيَآءَهٗ : اپنے دوست فَلَا : سو نہ تَخَافُوْھُمْ : ان سے ڈرو وَخَافُوْنِ : اور ڈرو مجھ سے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
یہ جو ہے سو شیطان ہے کہ ڈراتا ہے اپنے دوستوں سے سو تم ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو267
267 یہ جملہ مستانفہ ہے اس میں شیطان کی شرارت و شیطینت کا ذکر فرمایا نیز ایمان والوں کو نصیحت فرمائی کہ جس طرح اس موقع پر وہ شیطان کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوئے اور نہ اس سے ڈرے ہیں اسی طرح آئندہ بھی وہ شیطان کے چیلوں سے مت خوف کھائیں اور صرف مجھ سے ڈریں۔ ذَالِکُمْ میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور اشارہ اس پروپیگنڈا کرنے والے کی طرف ہے جو مسلمانوں سے کفار کی جمعیت اور کثرت سامان کا ذکر کر کے ان کی ہمتیں پست کرنا چاہتا تھا۔ اور یُخَوِّفُکُمْ اَوْلِیَاءَہ (روح ج 4 ص 129، کبیر ج 3 ص 148) اور اَوْلِیَاءَہ میں ضمیر الشیطان کی طرف راجع ہے اور اَوْلِیَاءَ الشَّیْطٰنِ سے یہاں ابو سفیان و من معہ (بحر ج 3 ص ص 120) ۔ شیطان جب بھی بنی آدم کو غلط راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اپنے انسانی چیلوں کو سامنے کردیتا ہے جو شیطان کی پوری پوری نمائندگی کرتے ہیں چناچہ ابو سفیان کی طرف سے جن لوگوں (عبد القیس کے سواروں یا نعیم بن مسعود ثقفی علی اختلاف القولین) نے مسلمانوں کو بد دل کرنے کی کوشش کی تھیں وہ شیطان ہی کے ایجنٹ تھے اور اسی کے سیکھے سکھائے تھے تو آیت کا مطلب یہ ہوا اے ایمان والو ! یہ تمہیں بد دل کرنیوالا اور تمہاری ہمت پست کرنے کی کوشش کرنیوالا در اصل شیطان ہے جو اپنے دوستوں (ابو سفیان وغیرہ) سے تم کو خوفزدہ اور مرعوب کرنا چاہتا ہے لیکن تم خدا پر بھروسہ رکھو اور جس طرح اس موقع پر تم نے استقامت اور جرات دکھائی ہے اور شیطان کے دوستوں سے مرعوب نہیں ہوئے۔ اسی طرح آئندہ بھی کبھی ان سے خوفزدہ مت ہونا اور ہمیشہ صرف مجھ سے ڈرنا اور میرے احکام کی تعمیل کرنا کیونکہ ایمان کا تقاضا یہی ہے۔ لان الایمان یقتضی ان یوثر العبد خوف اللہ علی خوف ؟ (مدارک ج ص 152) ۔
Top