Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 179
مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيَذَرَ : کہ چھوڑے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے عَلٰي : پر مَآ : جو اَنْتُمْ : تم عَلَيْهِ : اس پر حَتّٰى : یہانتک کہ يَمِيْزَ : جدا کردے الْخَبِيْثَ : ناپاک مِنَ : سے الطَّيِّبِ : پاک وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُطْلِعَكُمْ : کہ تمہیں خبر دے عَلَي : پر الْغَيْبِ : غیب وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يَجْتَبِىْ : چن لیتا ہے مِنْ : سے رُّسُلِھٖ : اپنے رسول مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے فَاٰمِنُوْا : تو تم ایمان لاؤ بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرُسُلِھٖ : اور اس کے رسول وَاِنْ : اور اگر تُؤْمِنُوْا : تم ایمان لاؤ وَتَتَّقُوْا : اور پر وہیز گاری فَلَكُمْ : تو تمہارے لیے اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
اللہ وہ نہیں کہ چھوڑ دے مسلمانوں کو اس حالت پر جس پر تم ہو جب تک کہ جدا نہ کر دے ناپاک کو پاک سے271 اور اللہ نہیں ہے کہ تم کو خبر دے غیب کی لیکن اللہ چھانٹ لیتا ہے اپنے رسولوں میں جس کو چاہے272 سو تم یقین لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اور اگر تم یقین پر رہو اور پرہیزگاری پر تو تم کو بڑا ثواب ہے273
271 حضرت شیخ نے فرمایا کہ یہ سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ تھا کہ مومنوں پر اللہ کی آزمائشیں کیوں آتی ہیں تو جواب دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ مومن اور منافق آپس میں ملے جلے رہیں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا فرما دیتا ہے تاکہ منافق ظاہر ہو کر مخلص مومنوں سے جدا ہوجائیں۔ مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ سے وہ حالت مراد ہے جس میں مخلص مومنین میں منافقین ملے ہوئے ہوں۔ من اختلاط المومنین المخلصین والمنافقین (مدارک ج 1 ص 153) ۔ اَلخَبِیْث سے منافق اور اَلطَّیِّب سے مخلص مومن مراد ہے منافق کو اس کے کفر و نفاق کی باطنی نجاست و خباثت کی بنا پر الخبیث فرمایا اور مخلص مومن کا قلب اخلاص اور نور ایمان کی طہارت و نورانیت کی وجہ سے طیب و طاہر ہوتا ہے اور پھر باطنی طہارت کے ساتھ اسے عملی اور اخلاقی طہارت بھی حاصل ہوتی ہے اس لیے اسے الطیب سے تعبیر فرمایا۔ 272 یہ ماقبل پر معطوف ہے اور لِیَطَّلِعَکُمْ میں خطاب مومنوں سے ہے بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ خطاب عام ہے مومنوں اور کافروں سب کو شامل ہے۔ والاول اولی یہ بھی سوال مقدر کا جواب۔ مومنوں نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں کوئی علامت دی جائے جس سے وہ مومن اور منافق میں پہچان کرسکیں۔ ان المؤمنین سالوا ان یعطوا علامۃ یفرقون بھا بین المومن والمنافق فنزلت (روح ج 4 ص 138) ۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ نہ تو ایسا کرے گا کہ مومنوں اور کافروں کو باہم ملا جلا رہنے دے اور ان میں حد امتیاز قائم نہ کرے بلکہ وہ ضرور منافقین کو مومنین سے جدا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا۔ کہ تم کو غیب کا علم دے دے اور تم دل کی پوشیدہ باتوں پر مطلع ہوجاؤ اور اس طرح مومن اور منافق کو پہچان لیا کرو بلکہ تمہارے لیے ایک ہی صورت ہے کہ امتحان و ابتلاء اور تکلیف و محنت کے ذریعے بطور استدلال تم مومن اور منافق میں امتیاز کرلو جیسا کہ احد میں واقع ہوا یا معشر المؤمنین ای ما کان اللہ لیعین لکم المنافقین حتی تعرفوھم و کن ذالک لکم بالتکلف والمحنۃ و قد ظھر ذالک فی یوم احد فان المنافقین تخلفوا واظھروا الشماتۃ (قرطبی ج 4 ص 289) ۔ باقی رہا اطلاع الغیب کے ذریعے مومن و منافق میں امتیاز کرنا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بعض رسولوں کو منتخب کرتا ہے اور بذریعہ وحی ان کو اطلاع دیتا ہے۔ تحقیق مزید : جہاں تک آیت کے نفس مفہوم کا تعلق تھا وہ تو اوپر بیان ہوچکا ہے اب یہاں اہل بدعت کے ایک مغالطہ کا رد مقصود ہے مبتدعین اس آیت سے حضرت نبی کریم ﷺ اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کے لیے کلی علم غیب ثابت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں الغیب میں الف لام استغراق کیلئے ہے اس آیت میں غیر انبیاء سے الغیب یعنی کلی غیب کی نفی کی گئی ہے اور پھر لکن سے برگزیدہ رسولوں کے لیے الغیب یعنی کلی غیب کو ثابت کیا گیا ہے لیکن یہ استدلال کئی وجوہ سے باطل ہے۔ اولا اس لیے کہ الف لام بلا شبہ استغراق کے لیے بھی آتا ہے لیکن یہ اس کا حقیقی معنی نہیں بلکہ مجازی ہے اور الف لام عہد خارجی میں اصل اور حقیقت ہے۔ چناچہ علامہ تفتا زانی فرماتے ہیں۔ التعریف لا یلزم ان یکون للاستغراق بل العہد ھو الاصل (التلویح ص 160) یعنی لام تعریف کے لیے ضروری نہیں کہ وہ استغراق کے لیے ہو بلکہ اصل تو عہد خارجی ہے اور مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی فرماتے ہیں۔ انما الفرق بان الجنس لا یحتاج الی مؤنۃ المقام الخطابی بخلاف الاستغراق (حاشیہ عبدالغفور ص 2) یعنی جنس اور استغراق میں فرق بایں طور ہے کہ جنس کے لیے مقام خطابی کے قرینہ کی ضرورت نہیں لیکن استغراق قرینہ کا محتاج ہوتا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ استغراق میں الف لام کا استعمال مجازی ہے۔ کیونکہ اہل علم خوب جانتے ہیں کہ قرینہ کے محتاج ہمیشہ مجازی معنی ہوتے ہیں۔ اور حقیقی معنی محتاج قرینہ نہیں ہوتے۔ اور فاضل محقق مولانا نور محمد لکھتے ہیں۔ قال العلامۃ تفتا زانی فی بعض تصانیف انھم اختلفوا فی اللام المزید بعد رفع الاسم بالابتداء کما فی سلام علیک فذبھب بعضھم الی انھا تعریف الجنس اذ لا عھد ھنا ولا ثالث لمعنی اللام باتفاق ائمۃ اللغۃ۔ اس کے بعد صاحب لباب الاعراب سے نقل کیا ہے۔ اللام لا یفید الا التعریف والاسم لا یدل الا علی الجنس فاذن لا یکون ثمہ الاستغراق نعم یصار الیہ بقرینۃ المقام لا ان یکون مدلول اللام (حاشیہ عبد الغفور ص 3) دونوں عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ الف لام باتفاق ائمہ لغت عہد خارجی اور جنس میں اصل اور حقیقت ہے اور استغراق میں اس کا استعمال مجازی اور محتاج قرینہ ہے، ہکذا فی المتن المتین وغیرہ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ استغراق الف لام کا مجازی استعمال ہے تو بلا قرینہ صارفہ حقیقت یعنی عہد خارجی کو چھوڑ کر استغراق مراد لینا ہرگز جائز نہیں۔ لان المجاز فرع الحقیقۃ اور مجازی معنی صرف اسی وقت مراد لیے جاتے ہیں۔ جب حقیقت متعذر ہو متی تعذر الحقیقۃ ارد المجاز۔ لیکن یہاں تو حقیقی معنی متعذر نہیں ہیں۔ بلکہ ممکن اور عین مراد ہیں کما سیاتی ثانیا۔ اس آیت میں الف لام کو استغراق پر محمول کرنا ویسے بھی مقام کے مناسب نہیں کیونکہ مقام تو عہد خارجی کا مقتضی ہے اس لیے کہ سوال تو غیب کے ایک خاص معاملہ کے بارے میں تھا یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں صاف صاف بتا دے کہ فلاں فلاں شخص منافق ہے یعنی ان کے دلوں میں نفاق ہے اس لیے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ تم کو اس غیب کی بات پر مطلع فرمادے۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ رسول کو اس غیب کی اطلاع دیدے۔ اس لیے الغیب میں الف لام عہد خارجی کے لیے ہے اور اس سے وہ مخصوص غیب مراد ہے یعنی منافقوں کی نشاندہی بذریعہ وحی الٰہی۔ ثالثا تمام مفسرین حضرات نے یہاں الغیب سے بعض علم غیب مراد لیا ہے۔ ماکان و ما یکون اور جمیع مغیبات کا کلی اور تفصیلی علم کسی نے بھی مراد نہیں یا تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ الف لام استغراق کے لیے نہیں۔ چناچہ علامہ قاضی بیضاوی اس آیت میں تفسیر میں فرماتے ہیں ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء فیوحی الیہ و یخبرہ ببعض المغیبات (بیضاوی ج 1 ص 56) لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے۔ چن لیتا ہے تو اس کی طرف وحی کرتا ہے اور اسے بعض مغیبات کی خبر دیتا ہے۔ امام بغوی فرماتے ہیں۔ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَاءُ فیطلعہ علی بعض علم الغیب (معالم ج 1 ص 382) لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب فرما لیتا ہے تو اسے بعض علم غیب پر مطلع فرما دیتا ہے علامہ خازن لکھتے ہیں۔ یعنی ولکن اللہ یصطفی و یختار من رسلہ من یشاء فیطلعہ علی ما یشاء من غیبہ (خازن ج 1 ص 382) ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جیسے چاہتا ہے چن لیتا ہے اور اپنے جس بعض غیب کی چاہتا ہے اس کو اطلاع دے دیتا ہے اور علامہ ابن صفی لکھتے ہیں۔ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسِلِہٖ مَنْ یَّشَاءُ فیخبرہ ببعض المغیبات (جامع البیان ص 66) اور مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں۔ فیطلعہ علی البعض من علوم الغیب احیانا (تفسیر مظہری 2 ص 185) یعنی اللہ تعالیٰ جس کو رسول منتخب کرتا ہے اسے بعض غیوب کی اطلاع دیتا ہے اور وہ بھی احیانا یعنی کبھی کبھی۔ رابعا اگر یہاں تمام قواعد عربیت اور اصول تفسیر کے خلاف الف لام استغراق کے لیے مان لیا جائے اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کو ماکان و ما یکون کا کلی اور تفصیلی علم غیب تھا تو اس سے مذکورہ بالا خرابیوں کے علاوہ قرآن مجید کی ان بہت سی آیتوں کی تکذیب لازم آئے گی جن میں نہایت صراحت سےحضور ﷺ کی ذات گرامی سے کلی علم غیب کی نفی کی گئی ہے مثلاً : (1) ۔ وَمِّمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنَافِقُوْنَ وَ مِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُم اور کچھ تمہارے گردوپیش والوں میں اور کچھ مدینہ والوں میں ایسے منافق ہیں جو نفاق کے حد کمال کو پہنچے ہوئے ہیں آپ بھی ان کو نہیں جانتے (کہ یہ منافق ہیں بس) ہم ان کو جانتے ہیں۔ اس آیت میں حضرت نبی کریم ﷺ سے صراحۃً مدینہ کے ان منافقین کی پہچان کی نفی کی گئی ہے جو اپنا نفاق چھپانے میں انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیتے تھے یہ آیت سورة توبہ کی ہے جو سورة آل عمران کے بعد نازل ہوئی تھی تو اگر آل عمران کی آیت سےحضور ﷺ کے لیے کلی علم غیب ثابت کیا جائے تو سورة توبہ کی بعد میں نازل ہونے والی آیت اس کی نفی کرتی ہے اور یہ کھلا ہوا تضاد ہے جس کا خدا کے کلام میں پایا جانا محال ہے۔ لہذا صحیح بات یہی ہے کہ زیر تفسیر آیت میں نہ الف لام استغراق کیلئے ہے اور نہ ہی اس سےحضور ﷺ کے لیے ماکان ومایکون کا کلی علم غیب ثابت ہے۔ (2) ۔ عَفَا اللہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ حَتّیٰ یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ (توبہ رکوع 1) ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف (تو) کردیا (لیکن) آپ نے ان کو (ایسی جلدی) اجازت کیوں دے دی جب تک آپ کے سامنے سچے لوگ ظاہر نہ ہوجاتے اور آپ جھوٹوں کو معلوم نہ کرلیتے حضرت نبی کریم ﷺ نے منافقین کو جنگ میں شریک نہ ہونے کی اجازت دے دی آپ نے ان کی چکنی چپڑی باتوں سے واقعی ان کو معذور سمجھ لیا حالانکہ وہ جھوٹے اور مکار تھے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ نازل فرمائی کہ آپ نے تمام عذر کرنے والوں کو کیوں اجازت دے دی۔ یہاں تک کہ آپ کو عذر میں سچے اور جھوٹے کا علم ہوجاتا تو اس سے معلوم ہوا کہحضور ﷺ کو عذر میں سچے اور جھوٹے کی پہچان نہ تھی۔ یہ آیت بھی سورة توبہ کی ہے۔ (2) ۔ یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللہُ لَکَ تَبْتَغیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ (تحریم) ۔ اے نبی کیوں حرام کرتا ہے تو اس چیز کو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے (اور وہ بھی) اپنی بیویوں کی رضا جوئی کے لیے۔ حضرت رسول خدا ﷺ نے ایک دفعہ بعض ازواج مطہرات کی خاطر شہد نہ کھانے کی قسم کھالی تھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ کو قسم سے دستبردار ہونے کا حکم دیا گیا تو معلوم کہ اس وقت تک آپ کو ماکان و ما یکون کا کلی غیب حاصل نہیں تھا۔ اگر آپ کو کلی غیب ہوتا تو آپ ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہ فرماتے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہ ہوتی۔ یہ سورت بھی آل عمران کے بعد نازل ہوئی تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں الغیب میں استغراق ہرگز مراد نہیں۔ (4) ۔ سورة منافقون جو آل عمران کے بعد نازل ہوئی ہے اس میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس واقعہ کی تفصیل کتب حدیث میں موجود ہے چناچہ صحیح بخاری ج 2 ص 727 پر ہے۔ حضرت زید بن ارقم کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں نے عبداللہ بن ابی منافق کو کہتے سنا کہ پیغمبر کے ساتھیوں کی مالی امداد مت کرو تاکہ وہ بھوکے مرتے ہوئے اس کا ساتھ چھوڑ دیں اور اب جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو العیاذ باللہ ان کمینوں کو شہر سے نکال باہر کریں گے۔ میں نے یہ باتیںحضور ﷺ تک پہنچائیں تو آپ نے اس منافق کو بلا کر اس سے پوچھا تو وہ صاف مکر گیا۔ اور اس نے قسمیں کھا کھا کر اپنی سچائی کا آپ کو یقین دلا دیا چناچہ آپ نے میری تکذیب اور اس کی تصدیق فرما دی جس سے مجھے جس سے مجھے بہت صدمہ ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے سورة منافقون کی ابتدائی آیتیں نازل فرما کر اصل حقیقت واضح فرمائی کہ ان منافقوں نے یہ باتیں کہی ہیں چناچہ اللہ تعالیٰ نے لفظ بلفظ ان باتوں کی تصدیق فرمائی جو میں نے بیان کی تھیں اورحضور ﷺ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری باتوں کی تصدیق فرما دی ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہحضور ﷺ کو اس واقعہ تک بھی کلی غیب حاصل نہیں تھا۔ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے۔ جو 9 ھ میں پیش آیا۔ تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آل عمران کی آیت میں استغراق مراد نہیں اور نہ ہی اس آیت میں آپ کے کلی علم غیب کا کوئی ثبوت ہے۔ (5) ۔ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِداً ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقاً بیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ ۔ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَا اِلَّا الْحُسْنٰی۔ وَاللہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ ۔ لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا (توبہ) اور جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ (اسلام کو) ضرر پہنچائیں اور اس میں بیٹھ کر کفر کی باتیں کریں۔ اور ایمان والوں میں تفریق ڈالیں اور ان لوگوں کو گھات کی جگہ مہیا کریں جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں اور وہ قسمیں کھا جائیں گے کہ بجز بھلائی کے ہماری کوئی نیت نہیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں۔ آپ اس میں کبھی (نماز کے لیے) کھڑے نہ ہوں۔ ابو عامر ایک نہایت ہی خبیث اور مکار پادری تھا۔ جو خود تو قیصر روم کے پاس پہنچا تاکہ اسے مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ کرسکے۔ ادھر مدینہ کے منافقین کو لکھا کہ وہ مسجد کے نام پر ایک عمارت بنائیں اور نماز کے بہانے اس میں جمع ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں کیا کریں اور اس کے خفیہ خطوط بھی ان کو اسی جگہ ملا کریں گے۔ نیز اگر کبھی وہ مدینہ آیا تو اس کا قیام بھی یہیں ہوگا۔ چناچہ انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک مسجد نما عمارت بنا لی اورحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر لگے قسمیں کھانے کہ حضرت ہمارا ارادہ نیک ہے ہم صرف یہ چاہتے تھے کہ مسجد قبا ہم سے دور ہے اور بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کا وہاں تک پہنچنا دشوار ہے اس لیے ہم نے یہ مسجد بنائی ہے تاکہ یہ لوگ اس میں آسانی سے نمازیں ادا کرسکیں۔ اور ہماری دلی خواہش ہے کہ اس مسجد کا افتتاح آپ کی نماز سے ہو اس لیے آپ اس میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے چلیں۔ اس وقتحضور ﷺ غزوہ تبوک کی مہم پر جا رہے تھے اس لیے آپ نے ان سے وعدہ فرما لیا کہ تبوک سے واپسی پر میں تمہاری نئی مسجد میں آؤں گا۔ اور اس میں نماز بھی پڑھوں گا۔ چناچہ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں ولو قدمنا انشاء اللہ تعالیٰ اتینا کم فصیلنا لکم فیہ (تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 388) یعنی اگر انشاء اللہ اس مہم سے بخیریت واپس آگئے تو تمہاری مسجد میں جا کر نماز پڑھیں گے۔ جب آپ غزوہ تبوک سے بخیریت واپس تشریف لے آئے تو دل میں ایفائے عہد کا خیال آگیا لیکن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو اصل حقیقت حال سے آگاہ فرما دیا تو اس سے بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کو جمیع مغیبات کا علم نہیں تھا۔ اگر آپ کو کلی غیب کا علم ہوتا تو ان منافقین کی مکاری اور عیاری کا بھی علم ہوتا اور آپ مسجد ضرار میں تشریف لے جا کر نماز پڑھنے کا وعدہ نہ فرماتے۔ مندرجہ بالا پانچ آیتیں سورة آل عمران کے بعد نازل شدہ سورتوں کی ہیں اور ان میں آنحضرت ﷺ سے کلی علم غیب کی صاف صاف نفی ہوتی ہے لہذا معلوم ہوا کہ آل عمران کی اس آیت میں الغیب کا الف لام استغراق کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی یہاں الغیب سے ماکان و ما یکون کا کلی علم غیب مراد ہے بلکہ الف لام یہاں عہد کے لیے ہے اور الغیب سے احد میں بےوفائی کرنے والے منافقین کی پہچان مراد ہے حاصل یہ کہ اس آیت سے آنحضرت ﷺ کے علم غیب کلی پر استدلال کرنا سراسر غلط اور باطل ہے۔ 273 جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ غیب پر مطلع نہیں کرنے کا تو اب تمہارے لیے صرف یہی چیز باقی رہ جاتی ہے کہ تم اللہ پر اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لاؤ اور اس پر قائم رہو تمہارا کام ایمان و تصدیق ہے نہ کہ علم غیب حاصل کرنے کی تمنا کرنا۔ ای علیکم التصدیق لا التشوف الی اطلاع الغیب (قرطبی ج 4 ص 290) ۔ یہاں اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ ہی کو قادر مطلق مانو اور صرف اسے ہی عالم الغیب اور پوشیدہ باتیں جاننے والا سمجھو اور رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں اللہ نے ان کو اپنی رسالت کے لیے چنا ہے اور وہ عالم الغیب نہیں ہیں ان کو صرف اتنا ہی غیب معلوم ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا اور وہ اللہ کی طرف سے وحی کے بغیر دین میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ فامنوا باللہ و رسلہ بان تقدروہ حق قدرہ وتعلمونہ و ھذہ مطلعا علی الغیوب وان تنزلوھم منازلھم بان تعلموھم عبادا مجتبین لا یعلمون الا ما علیھم اللہ و لا یخبرون الا بما اخبر اللہ بہ من الغیوب او لیسوا من علم الغیب فی شیء (بحر ج 3 ص 127) ۔ المراد من الایمان باللہ تعالیٰ ان یعلموہ وحدہ مطلعا علی الغیب و من الایمان برسلہ ان یعلموھم عبادا مجتبین لا یعلمون الا ما علمھم اللہ تعالیٰ ولا یقولون الا ما یوحی الیھم فی امر الشرائع (روح ج 4 ص 138) ۔ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا الخ۔ اور اگر تم اللہ پر اور اس کے رسولوں پر کما حقہ ایمان لے آؤ گے اور پھر اللہ کے اوامرو نواہی میں اس کی مخالفت سے بچو گے تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و احسان سے تم کو اتنا بڑا اجر اور ثواب عطا کرے گا۔ جو اندازے اور حساب سے باہر ہوگا۔ لایکتنہ ولا یجد فی الدنیا و الاخرۃ (روح ج 4 ص 139) ۔ خلاصہ ماقبل :۔ شبہ متعلقہ جہاد کا باالتدریج جواب ارشاد فرمایا۔ پہلے اِذْ ھَمَّتْ طَّائِفَتٰنِ سے لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ تک فرمایا کہ تم کو کب بےیارو مددگار چھوڑا ہے۔ میدان احد میں بھی تمہاری مدد کی تم میں سے دو قبیلوں نے بزدلی دکھانے اور جنگ میں شریک نہ ہونے کا ارادہ کرلیا تو اللہ نے ان کو تھام لیا اور ان کی ہمتیں مضبوط کردیں اور اس سے پہلے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تم تعداد میں کم اور بےسرو سامان تھے۔ لیکن پھر بھی اللہ نے تم کو فتح یاب فرمایا۔ اس کے بعد رکوع 14 میں علی سبیل الترقی فرمایا۔ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ یہ شکست اللہ کی حکمت بالغہ کا عین مقتضا تھی اللہ تعالیٰ مخلص مومنوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اگر احد میں تمہیں مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تو ہوا کیا تمہارے دشمن بھی تو تمہارے ہاتھوں اس قدر نقصان اٹھا چکے ہیں۔ آخر میں اس سے ترقی کر کے فرمایا۔ وَلَقَدْ صَدَقَکُمْ اللہُ وَعْدَہ الخ۔ یہ شبہ کا اصل جواب ہے یعنی اللہ نے تو اپنا وعدہ پورا فرما دیا اور وعدہ کے مطابق تمہاری امداد فرمائی اور تم کو فتح بھی دے دی۔ لیکن تمہاری کوتاہی اور امر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے تمہاری فتح شکست میں بدل گئی۔ اب تک چار فریقوں کا ذکر آچکا ہے۔ (1) ۔ مومنین مخلصین۔ (2) ۔ منافقین طاعنین۔ (3) ۔ شہداء اور (4) حضرت پیغمبر خدا ﷺ وَ لَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا الخ سے یَغْشیٰ طَائِفَۃٌ مَّنْکُمْ تک مخلصین کا ذکر ہے جس میں ان کو زجریں بھی ہیں اور قتال وانفاق کی ترغیبیں بھی ان کی کوتاہیوں پر عفو و درگذر کا اعلان بھی تاکہ ان کی ان فروگذاشتوں کی بنا پر کوئی ان کے خلاف زبان طعن نہ کھولے اس لیے ایک ہی رکوع میں دو دفعہ اعلان فرمایا۔ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ اور وَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْ ، پھر فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ الخ۔ سے حضرت پیغمبر ﷺ کے مشفقانہ برتاؤ کی تعریف و تحسین فرمائی کہ جن کی غلطی شکست کا سبب بنی اور اسی طرح جو مسلمان شکست خوردہ ہو کر بھاگے ان پر سختی نہیں فرمائی۔ بلکہ پیار و محبت سے ان کی دلجوئی کہ نہ دل میں ان کے بارے میں کدورت باقی رکھی اور نہ زبان سے سختی کی فرمایا آپ کی نرم خوئی اور مشفقانہ برتاؤ یہ سب آپ پر اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے آپ کو ایسے کریمانہ اخلاق کی دولت عطا فرمائی ہے اگر آپ ان سے سختی کا برتاؤ کرتے تو وہ سب بد دل ہو کر آپ سے برگشتہ ہوجاتے آخر میں ارشاد ہوا کہ آپ ان سے درگذر فرمائیں اور آئندہ کے لیے امور مہمہ میں ان سے مشورہ کریں تاکہ مزید ان کی دلجوئی ہوجائے اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوگیا کہ اگر ماتحتوں سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ان سے سختی نہیں کرنی چاہئے بلکہ ان سے نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ اور طَائِفَۃٌ قَدْ اَھَّمَّتْھُمْ اَنْفُسُہُمْ سے اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ تک منافقین کے مختلف حالات بیان کیے ہیں اور درمیان میں ان کو زجر فرمایا کہ پیغمبر ﷺ کی وہ مشفق و مہربان ہستی جو نہ دل میں کسی کے خلاف کینہ رکھے اور نہ زبان سے سختی کرے۔ کیا اس پر خیانت کا طعن کرتے ہو۔ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَیْ الْمُؤْمِنِیْنَ الخ پیغمبر ﷺ کی ذات تو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اس پر طعن کرنے کی بجائے تمہیں تو اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا سے لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُوْمِنِیْنَ تک اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے فضیلت اور ان کے ثواب کا ذکر ہے۔ پھر اَلَّذِینْ اسْتَجَابُوْا سے فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ تک تین چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلے تمام مومنین مخلصین کی شان اور ان کی تعریف فرمائی۔ جو اللہ کی راہ میں لڑے۔ زخموں پر زخم کھائے اور عزیزوں کی شہادت کے صدمات برداشت کیے۔ پہلے ان کو زجریں کی تھیں یہاں ان کی دلجوئی فرمائی تاکہ ان کے زخمی دلوں کی مرہم پٹی ہوجائے پھر وَ لَا یَحْزُنْکَ سے حضرت نبی کریم ﷺ کو تسلی دی کہ آپ ان شریر منافقوں کا غم نہ کریں یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اس کے بعد منافقین اور مشرکین کو زجر فرمایا اور ان کو عذاب اخروی سے تخویف فرمائی۔
Top