Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 186
لَتُبْلَوُنَّ فِیْۤ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ١۫ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِیْرًا١ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ
لَتُبْلَوُنَّ : تم ضرور آزمائے جاؤگے فِيْٓ : میں اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال وَاَنْفُسِكُم : اور اپنی جانیں وَلَتَسْمَعُنَّ : اور ضرور سنوگے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَمِنَ : اور۔ سے الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا : جن لوگوں نے شرک کیا (مشرک) اَذًى : دکھ دینے والی كَثِيْرًا : بہت وَاِنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے عَزْمِ : ہمت الْاُمُوْرِ : کام (جمع)
البتہ تمہاری آزمائش ہوگی مالوں میں اور جانوں میں283 اور البتہ سنو گے تم اگلی کتاب والوں سے اور مشرکوں سے بدگوئی بہت اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو یہ ہمت کے کام ہیں284
283 یہاں تیسری بار مضمون انفاق و قتال کا لف و نشر مرتب کے طور پر اعادہ کیا گیا ہے۔ فرمایا ابھی تم پر مال و جان کے سلسلے میں کئی امتحانات آئیں گے۔ مال میں امتحان یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اور دیگر کارہائے خیر میں مال خرچ کرنے کا حکم ہوگا۔ یا مال پر آفات و بلیات آئیں گی اور جان میں ابتلاء یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہوگا۔ قتل و جراح، قید و بند اور دیگر مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ای لتختبرن (فی اموالکم) بالانفاق فی سبیل اللہ و بما یقع فیھا من الافات (وفی انفسکم) بالقتل والاسر والجراح و ما یرد علیھا من انواع المصائب (مدارک ج 1 ص 155) ۔ اس لیے ان امتحانات کے لیے تیار ہوجاؤ اور ان تکالیف کو برداشت کرنے کے لیے اپنی ہمتوں کو آمادہ کرلو۔ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْالْکِتٰبَ الخ یہ بھی ابتلاء ہی کی ایک صورت ہے اَلَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰب سے یہود و نصاریٰ اور اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا سے مشرکین عرب مراد ہیں اور اَذًی کَثِیْرًا سے آنحضرت ﷺ کے حق میں توہین آمیز کلمات، ہجویہ نظمیں، اسلام اور مسلمانوں پر طعن وتشنیع اور ان کا تمسخر مراد ہے۔ من الطعن فی الدین الحنیف و القدح فی احکام الشرع الشریف و صد من اراد ان یومن وتخطئۃ من اٰمن و ما کان من کعب بن الاشرف و اضرابہ من ھجاء المومنین الخ (ابو السعود ج 3 ص 167) ۔ یعنی تم اہل کتاب اور مشرکین کی زبانوں سے بہت کچھ طعن و ملامت اور تحقیر و تذلیل کی باتیں سنو گے اور یہ بھی تمہارے حق میں ایک امتحان ہوگا۔ ان دشمنان دین اور اعداء اسلام کی باتیں سن کر تم بد دل مت ہونا۔ نہ ہمت ہارنا اور نہ ہی ان کی باتوں سے مشتعل ہو کر سنجیدگی اور تقویٰ کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا اور ان تمام امتحانات کا صبر و تحمل اور متانت سے مقابلہ کرنا۔ 284 اس میں ایمان والوں کو بوقت ابتلاء و امتحان جرات و شجاعت سے کام لینے اور اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے دی گئی تکلیفوں پر صبر و ثبات کا دامن تھامنے کی تلقین کی گئی ہے ذَالِکَ سے صبر وتقویٰ کی طرف اشارہ ہے اور عزم الامور (ابو السعود ج 3 ص 167) ۔ اس سے موجودہ دور کے مبلغین توحید کو سبق حاصل کرنا چاہئے اگر آج کل کے مشرک مولوی، پیر اور گدی نشین ان کو گالیاں دیں، ان پر طعن وتشنیع کریں اور ان کو بےادب اور گستاخ کہہ کر بد نام کرنے کی کوشش کریں تو انہیں ان کی پر وہ کیے بغیر صبر و تحمل اور ثبات و استقلال سے اپنا کام جاری رکھنا چاہئے۔
Top