Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 188
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَحْسَبَنَّ : آپ ہرگز نہ سمجھیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَفْرَحُوْنَ : خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس پر جو اَتَوْا : انہوں نے کیا وَّيُحِبُّوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْمَدُوْا : ان کی تعریف کی جائے بِمَا : اس پر جو لَمْ يَفْعَلُوْا : انہوں نے نہیں کیا فَلَا : پس نہ تَحْسَبَنَّھُمْ : سمجھیں آپ انہیں بِمَفَازَةٍ : رہا شدہ مِّنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
تو نہ سمجھ کہ جو لوگ خوش ہوتے ہیں اپنے کئے پر اور تعریف چاہتے ہیں بن کئے پر286 سو مت سمجھ ان کو کہ چھوٹ گئے عذاب سے اور ان کے لئے عذاب ہے دردناک287
286 اس کا تعلق وَلَا تَکْتُمُوْنَہ سے ہے اور مَا اَتَوا سے کتمان حق اور تحریف کا فعل مراد ہے یعنی پہلے تو ان علماء اہل کتاب نے عہد کیا تھا کہ وہ حق بیان کریں گے مگر اب وہ ایک طرف تو عہد شکنی کر کے حق چھپا رہے ہیں اور پھر اس فعل پر خوش بھی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی مدح سرائی ہو اور ان کی حق بیانی دیانت وامانت اور ان کے علم و فضل کی تعریف کی جائے۔ قال ابن عباس ؓ ھم الیھود حرفوا التوراۃ وفرحوا بذالک واحبوا ان یوصفوا بالدیانۃ والفضل (ابو السعود ج 3 ص 170) ۔ 287 یہ علماء یہود کے لیے تخویف اخروی ہے اور اس میں خطاب آنحضرت ﷺ سے ہے یا ہر مخاطب سے ان کی ظاہری شان و شوکت اور ٹھاٹھ سے کوئی یہ اندازہ نہ کر بیٹھے کہ شاید آخرت میں بھی یہ لوگ عیش میں ہوں گے بلکہ اس بات کا تو کسی کے ذہن میں گمان اور خیال بھی نہ آنے پائے کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے بلکہ انہیں مفسدانہ اور گمراہانہ کارروائیوں کی ضرور سزا ملے گی جو بہت ہی دردناک ہوگی۔ فاخبر ان لھم عذابا الیما بما افسدوا الدین علی عباد اللہ (قرطبی ج 4 ص 306) ۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے گدی نشین اور بدعت پسند مولوی محض اپنی گدیوں اور اپنے جھوٹے وقار کی خاطر مسئلہ توحید کو چھپاتے ہیں اور اسے ظاہر نہیں کرتے۔ سورة آل عمران میں چار مضامین بیان کیے گئے ہیں۔ توحید، رسالت، جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ۔ اب یہاں ان چاروں کا اعادہ کیا گیا ہے۔ پہلے مضمونِ توحید کا اعادہ ہے۔ سورة آل عمران میں چونکہ زیادہ تر نصاریٰ کی اصلاح مد نظر تھی، جو حضرت عیسیٰ ، مائی مریم اور آل عمران کو کارساز سمجھتے اور ان کو پکارتے تھے۔ اس لیے فرمایا لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰواتِ والْاَرضِ ۔
Top