Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
تو کہہ یا اللہ مالک سلطنت کے تو سلطنت دیوے جس کو چاہے اور سلطنت چھین لیوے جس سے چاہے اور عزت دیوے جس کو چاہے اور ذلیل کرے جس کو چاہے تیرے ہاتھ ہے سب خوبی36 بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے
36:۔ ذکر توحید بار سوم۔ قُلِ اللّٰھُمَّ ۔ جب دلائل عقلیہ ونقلیہ سے ثابت ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی الہ (معبود) نہیں تو اب اسکا ثمرہ بیان فرمایا کہ غائبانہ حاجات میں صرف اللہ ہی کو پکارو اور پکارتے وقت یوں کہا کرو اے اللہ ان صفات کے مالک میری فلاں حاجت پوری کر۔ اَللّٰھُمَّ ۔ خلیل اور سیبویہ اور بصرہ کے نحویوں کی رائے میں اصل میں یَا اَللہُ تھا۔ حرف ندا کو حذف کر کے اس کے عوض میں میم مشددہ مفتوحہ کا آخر میں اضافہ کردیا گیا۔ مٰلِکَ الْمُلْکِ ۔ امام مبرد اور زجاج کے نزدیک یہ اللّٰھُمَّ کی صفت ہے اور اسی لیے منسوب ہے کیونکہ منادی مفرد مبنی علی الضم کی صفت جب مضاف ہو تو وہ منصوب ہوتی ہے۔ وانتصاب مالک علی الوصفیۃ عند المبرد والزجاج (روح ج 3 ص 113، کبیر ج 2 ص 638) اور مُلْک بضم میم سے کامل قدرت واختیار اور مکمل غلبہ واقتدار مراد ہے تو مَالِکُ الْمُلْکِ کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی حقیقی متصرف اور ہر قسم کے اختیار واقتدار کا واحد مالک ہے۔ تمام تصرفات اور اختیارات اسی کے قبضہ میں ہیں اور ان میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ فمالک الملک ھو الملک المحقیقی المتصرف بما شاء کیف شاء ایجادا او اعداما وامتۃً وتعذیبا واثابۃ من غیر مشارک ولا مانع (روح ج 3 ص 113) جب یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی مالک الملک علی الاطلاق ہے تو اس کے بعد کچھ تصرفات کا ذکر کیا۔ جو اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ تُؤْتِیْ الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ ۔ یہ جملہ مع معطوفات منادی سے حال ہے۔ کیونکہ منادی معنیً مفعول ہوتا ہے۔ یا یہ جملہ مع معطوفات منادی کی صفت ہے اور جملہ (جو اگرچہ نکرہ کے حکم میں ہوتا ہے) جب کسی مفرد معرفہ کے ساتھ مخصوص ہو تو وہ معرفہ کے حکم میں ہوتا ہے اور معرفہ کی صفت واقع ہوسکتا ہے۔ کما فی الرضی قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ اور یہاں ملک سے مراد حکومت وسلطنت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تو جسے چاہتا ہے دنیا کی حکومت دے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ جیسا کہ آئے دن حکومتوں میں ردوبدل اور انقلاب رونما ہوتا رہتا ہے۔ اَلْخَیْرُ مبتدا مؤخر ہے اور اس میں الف لام استغراق کے لیے ہے۔ بِیَدِکَ خبر مقدم ہے تاکہ حصر اور تخصیص کا فائدہ دے۔ اور یَد سے یہاں قدرت اور قبضہ مراد ہے۔ یعنی ہرق سم کی خیر اور بھلائی صرف تیری ہی قدرت اور صرف تیرے ہی قبضہ واختیار میں ہے اور متصرف علی الاطلاق تو ہی ہے۔ تیرے سوا کوئی مالک ومختار، قادر و کارساز، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ تعریف الخیر للتعمیم وتقدیم الخبر للتخصیص ای بقدرتک الخیر کلہ لا بقدرة احد من غیرک تتصرف فیہ قبضا وبسطا جسما تقتضیہ مشیتک (ابو السعود ج 2 ص 641) ۔
Top