Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 46
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَيُكَلِّمُ : اور باتیں کریگا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں وَكَهْلًا : اور پختہ عمر وَّمِنَ : اور سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار
اور باتیں کریگا لوگوں سے جب کہ ماں کی گود میں ہوگا اور جب کہ پوری عمر کا ہوگا اور نیک بختوں65 میں ہے
65:۔ یہ بھی فرشتے کا کلام ہے یعنی وہ بچہ شیر خوارگی کے زمانہ میں بھی باتیں کرے گا اور بڑھاپے میں بھی اور صالحین میں سے ہوگا شیر خوارگی کے زمانہ میں باتیں کرنا تو ایک معجزہ تھا۔ اس لیے اس کا ذکر کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر بڑھاپے میں باتیں کرنا تو کوئی کمال نہیں پھر اس کے ذکر کی آخر کیا وجہ ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر 33 برس کی ہوئی اس وقت اللہ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ چناچہ ابھی تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر ہیں اور ان کا کہولت میں باتیں کرنا ابھی باقی ہے کیونکہ کہولت چالیس سال کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔ اس لیے وہ آسمان سے اتریں گے اور دوبارہ زمین پر آکر چوبیس سال زندگی بسر کریں گے اور اس طرح کہولت میں باتیں کرنے کا خدائی وعدہ پورا ہوگا۔ وعلی ما ذکر فی سن الکہولۃ یراہ بتکلیمہ (علیہ السلام) کہلا تکلیمہ لھم کذالک بعد نزولہ من السماء وبلوغہ ذالک السن بناء علی ما ذھب الیہ سعید بن المسیب وزید بن اسلم وغیرھما انہ (علیہ السلام) رفع الی السماء وھو ابن ثلاث وثلثین سنۃ وانہ سینزل الی الارض ویبقی فیھا اربعا وعشرین سنۃ کما رواہ ابن جریر بسند صحیح ( روح ج 3 ص 164، کبیر ج 2 ص 677، قرطبی ج 4 ص 90) ویکلم الناس فی المھد وکہلا قال ابن زید رفعہ اللہ الیہ قبل ان یکون کہلا قال وینزل کہلا۔ ابن جریر ج 3 ص 184) یہ آیت حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات اور رفع الی السماء کی واضح دلیل ہے۔ نیز یہ آیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کے بطلان پر نص صریح ہے کہ اس سے ان کے تغیر احوال کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً ماں کے پیٹ سے پیدا ہونا، طفل ہونا اور کہل ہونا وغیرہ اور جو ذات اس قدر متغیر اور انقلاب زمانہ سے متاثر ہو وہ معبود اور الہ بننے کے لائق نہیں۔ جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ المراد عنہ بیان کونہ متقلبا فی الاحوال من الصبا الی الکھولۃ والتغیر علی الالہ تعالیٰ ومحال والمراد منہ الرد علی وفد مجران فی قولھم ان عیسیٰ کان الہا (کبیر ج 2 ص 677) ۔
Top