Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 52
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِ١ؕ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ١ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ١ۚ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَحَسَّ : معلوم کیا عِيْسٰى : عیسیٰ مِنْھُمُ : ان سے الْكُفْرَ : کفر قَالَ : اس نے کہا مَنْ : کون اَنْصَارِيْٓ : میری مدد کرنے والا اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ قَالَ : کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواریّ (جمع) نَحْنُ : ہم اَنْصَارُ : مدد کرنے والے اللّٰهِ : اللہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَاشْهَدْ : تو گواہ رہ بِاَنَّا : کہ ہم مُسْلِمُوْنَ : فرماں بردار
پھر جب معلوم کیا عیسیٰ نے بنی اسرائیل کا کفر بولا کون ہے کہ میری مدد کرے اللہ کی راہ میں74 کہا حواریوں نے ہم ہیں مدد کرنے والے اللہ کے ہم یقین لائے اللہ پر اور تو گواہ رہ کہ ہم نے حکم قبول کیا75
74 یہاں کلام میں اندماج ہے۔ یعنی عِلْماً سے پہلے کچھ عبارت محذوف ہے ای فولد عیسیٰ کما بشر بہ وبلغ قومہ الرسالۃ۔ یعنی جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حسب بشار پیدا ہوچکے اور تبلیغ رسالت کا فریضہ انجام دیدیا تو یہودیوں نے ان کے خلاف حسدوبغض کی وجہ سے سازشیں شروع کردیں۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے کفر و انکار اور عداوت کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے ماننے والوں کو اپنی مدد اور نصرت کی دعوت دی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے کا قول وَرَسُوْلاً اِلیٰ بَنِیْ اِسْرَائِیلَ تک اور اس کے بعد اندماج ہو اور مذکورہ عبارت اس کے بعد محذوف ہو (کذا فی الروح ج 3 ص 174) اس سے بھی عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کی تردید ہوگئی کہ جو شخص خود عالم اسباب میں مدد اور نصرت کا طالب ہے۔ وہ کس طرح الہ بن سکتا اور دوسروں کی مشکل کشائی اور حاجت برآری کرسکتا ہے۔ 75 حَوَّارِیِّیْن حواری کی جمع ہے یہ لوگ اپنے علاقہ کے سردار تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نہایت اخلاص سے ایمان لا چکے تھے وہ بول اٹھے کہ ہم اللہ کے دین کی خاطر آپ کی مدد کریں گے۔ آپ اس پر گواہ رہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں اور دل وجان سے اللہ کے فرمانبردار ہیں۔ وقیل کانوا ملوکا۔ قالہ ابن عون (قرطبی ج 4 ص 98 وکذا فی الکبیر ج 2 ص 686)
Top