Jawahir-ul-Quran - Az-Zumar : 17
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اجْتَنَبُوا : بچتے رہے الطَّاغُوْتَ : سرکش (شیطان) اَنْ : کہ يَّعْبُدُوْهَا : اس کی پرستش کریں وَاَنَابُوْٓا : اور انہوں نے رجوع کیا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف لَهُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰى ۚ : خوشخبری فَبَشِّرْ : سو خوشخبری دیں عِبَادِ : میرے بندوں
اور جو لوگ بچے شیطانوں سے22 کہ ان کو پوجیں اور رجوع ہوئے اللہ کی طرف ان کے لیے ہے خوشخبری سو تو خوشی سنا دے میرے بندوں کو
22:۔ ” والذین الخ “ یہ ایمان والوں کے لیے بشارت اخروی ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ ” الطاغوت “ سے ہر معبود غیرا للہ مراد ہے۔ قال الرغب : ھو عبارۃ عن کل متعد وکل معبود من دون اللہ تعالیٰ (روح ج 23 ص 252) ۔ طاغوت کی مزید تحقیق سورة بقرہ کی تفسیر حاشیہ (504) میں ص 126 پر گذر چکی ہے۔ فراجعہ، ان یعبدوھا، الطاغوت سے بدل الاشتمال ہے۔ ” وانابوا الی اللہ “ میں واؤ تفسریہ ہے یعنی جن لوگوں نے غیر اللہ کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی خالص عبادت میں منہمک ہوگئے ان کے لیے آخرت میں جنت کی بشارت ہے۔ ” فبشر عباد الخ “ اس لیے آپ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنا دیں جو بات کو بغور سنتے اور حق و باطل میں امتیاز کر کے حق بات کو مان لیتے اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اللہ نے ہدایت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور حقیقت میں عقلمند لوگ یہی ہیں۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں۔ ” احسن القول “ سے مسئلہ توحید مراد ہے۔
Top