Jawahir-ul-Quran - Az-Zumar : 30
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ٘
اِنَّكَ : بیشک تم مَيِّتٌ : مرنے والے وَّاِنَّهُمْ : ار بیشک وہ مَّيِّتُوْنَ : مرنے والے
بیشک تو بھی مرتا ہے33 اور وہ بھی مرتے ہیں
33:۔ ” انک میت الخ “ یہ شبہ مقدرہ کا جواب ہے۔ شبہ یہ تھا مشرکین کہتے تھے جب تک یہ زندہ ہیں اس وقت تک تو یہ ہمارا اور ہمارے معبودوں کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ ہاں البتہ موت ہی اس سے ہمیں خلاصی دلا سکتی ہے۔ جب یہ مرجائے گا تو قصہ پاک ہوجائے گا۔ جیسا کہ دوسری ان کا قول اس طرح نقل کیا گیا ہے ” ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون “ (طور رکوع 2) ۔ جواب میں ارشاد فرمایا موت سے سے کسی مفر نہیں۔ اگر وہ آپ کیلئے موت کے منتظر ہیں تو وہ خود کب تک زندہ رہیں گے۔ جس طرح آپ موت سے دو چار ہونے والے ہیں اسی طرح وہ بھی لقمہ اجل بننے والے ہیں۔ پھر قیامت کے دن تم خدا کے سامنے جھگڑا کرو گے۔ مشرکین کہیں گے۔ ” ماجاءنا من نذیر “ ہمارے پاس تو کوئی پیغمبر آیا ہی نہیں۔ آپ فرمائیں گے میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا مگر تم نے نہ مانا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ محق و مبطل کے درمیان آخری فیصلہ فرمائے گا۔ کانوا یتربصون برسول اللہ ﷺ موتہ فاخبر ان الموت یعمہم فلا معنی للتربص و شماتۃ الفانی بالفانی (مدارک ج 4 ص 44) ۔ ” انک میت و انہم میتون “۔ آنحضرت ﷺ اور کفر پر موت کے ورود کو دو مستقل اور مؤکد جملوں میں اس لیے ذکر فرمایا تاکہ مشرکین جو موت سے غافل ہوچکے ہیں خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں۔ نیز آنحضرت پر موت کے درود کو کوئی مستبعد نہ سمجھے۔ وتاکید الجملۃ فی (انہم میتون) للاشعار بانہم فی غفلتۃ عظیمۃ کانہم ینکرون الموت وتاکیدا لاولی دفعا للاستبعاد موتہ (علیہ الصلوۃ والسلام) (روح ج 23 ص 263) ۔ چناچہ جب حضرت خاتم النبیین ﷺ کی وفات کا سانحہ فاجعہ پیش آیا، حضرت عمر ؓ نے شدت حزن و غم سے بےاختیار ہو کر آپ کی موت کا انکار کردیا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جن آیتوں سے استدلال کر کے حضرت عمر ؓ کو آپ کی موت کا یقین دلایا ان میں یہ آیت بھی تھی۔ ھذہ الایۃ من الایات استشہد بھا الصدیق ؓ عند موت الرسول صلی اللہ علیہ حتی تحقق الناس موتہ (ابن کثیر ج 4 ص 52) ۔ اخبرہ بموتہ و موتھم لئلا یختلفوا فی موتہ کما اختلفت الامم فی غیرہ حتی ان عمر رؓ لما ان کر موتہ احتج ابوبکر ؓ بہذہ الایۃ فامسک قرطبی ج 15 ص 254) ۔ دو مستقل جملے استعمال کرنے سے دونوں موتوں کی نوعیت یا کیفیت کے اختلاف کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں، جیسا کہ بعض کا خیال ہے بلکہ مستقل اور مؤکد جملوں سے درجات میں تفاوت کے باوجود دونوں کا موت میں متساوی ہونا علی وجہ التاکیدبیان کرنا مقصود ہے۔ الخامس لیعلمہ ان اللہ تعالیٰ قد سوی فیہ بین خلقہ مع تفاضلہم فی غیرہ لتکثر فیہ السلوۃ وتقل فیہ الحسرۃ (ایجا) ۔ باقی رہی انبیاء (علیہم السلام) کی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد عالم برزخ میں زندگی، تو اس پر تمام اہلسنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو عالم برزخ میں نہایت اعلی وا رفع برزخی ھیات حاصل ہے جو بعض اعتبارات سے دنیوی حیات سے بھی اقوی ہے۔ حیات انبیاء (علیہم السلام) کی تحقیق سورة آل عمران کی تفسیر میں حاشیہ 260 ص 193 پر گذر چکی ہے۔
Top