Jawahir-ul-Quran - Az-Zumar : 46
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ فَاطِرَ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین عٰلِمَ : اور جاننے والا الْغَيْبِ : پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر اَنْتَ : تو تَحْكُمُ : تو فیصلہ کرے گا بَيْنَ : درمیان عِبَادِكَ : اپنے بندوں فِيْ مَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
تو کہہ اے اللہ47 پیدا کرنے والے آسمانوں کے اور زمین کے جاننے والے چھپے اور کھلے کے تو ہی فیصلہ کرے اپنے بندوں میں جس چیز میں وہ جھگڑ رہے تھے
47:۔ ” قل اللہم الخ “ یہ دوسرا مفصل ثمرہ ہے۔ ” اللہم “ موصوف ” فاطر السموات الخ “ اس کی صفت، مقصود بالنداء آخر میں مقدر ہے۔ مقصود بالنداء کی کوئی تخصیص نہیں البتہ بقرینہ حدیث بعض مفسرین نے اھدنی لما اختلف فیہ من الھق مقدر مان ہے (جلالین، خازن) ۔ ایسے روشن اور قطعی دلائل کے بعد بھی اگر معاندین نہ مانیں تو آپ اللہ سے یوں دعا مانگا کریں کہ اے اللہ ان صفات مذکورہ والے مجھے اس ہدایت پر قائم رکھ اور قیامت کے دن ہمارے اور ان منکرین کے درمیان فیصلہ فرما۔
Top