Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 110
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّعْمَلْ : کام کرے سُوْٓءًا : برا کام اَوْ يَظْلِمْ : یا ظلم کرے نَفْسَهٗ : اپنی جان ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ : پھر بخشش چاہے اللّٰهَ : اللہ يَجِدِ : وہ پائے گا اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو کوئی کرے گناہ یا اپنا برا80 کرے پھر اللہ سے بخشوادے تو پاوے اللہ کو بخشنے والا مہربان
80 سُوْ ء سے مراد چوری اور ظلم، نفس سے مراد جھوٹی شہادت ہے یعنی جو شخص چوری اور جھوٹی گواہی جیسا گناہ کر کے بھی اس سے سچی توبہ کرلے اللہ تعالیٰ اس کا گناہ معاف کر کے اسے اپنی رحمت کا مورد بنا لے گا۔ وَمَنْ یَّکْسِبْ خَطِیْئَۃً اَوْ اِثْماً یہ بھی قوم طعمہ کو زجر ہے کیونکہ انہوں نے ایک بےگناہ یہودی پر تہمت لگائی اور طعمہ کو بری کرنے کے لیے جھوٹ قسمیں کھائی اور جھوٹی گواہیاں دیں۔ خَطِیْئَۃً سے مراد چوری اور اثم سے مراد جھوٹی قسم ہے۔ قیل ان الخطیئۃ ھی سرقۃ الدرع والاثم ھو یمینہ الکاذبۃ (خازن ج 1 ص 496، بحر ج 3 ص 346) ۔ وَلَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ الخ۔ لَوْ کا جواب محذوف ہے یعنی لَاَضَلُّوْک اور لَھَمَّتْ سے استیناف ہے جو ماقبل کے لیے بمنزلہ علت ہے اور ان کافروں کے برے مقصد اور ارادے کو ظاہر کرنے کیلئے لایا گیا ہے یعنی اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو وہ آپ کو صحیح فیصلے سے بھٹکا دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے حقیقت حال سے مطلع کر کے آپ کو ان کے دھوکے سے بچالیا وہ تو اپنی طرف سے آپ کو غلط راہ پر ڈالنے کا تہیہ کرچکے تھے۔ وجوز ابو البقاء ان یکون الجواب محذوفا والتقدیر ولو لا فض (رح) اللہ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہٗ لا ضلوک ثم استانف بقولہ سبحانہ (لھمت) ای لقد ھمت بذالک (روح ج 5 ص 143) ۔
Top