Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
بیشک اللہ تم کو فرماتا ہے کہ پہنچا دو امانتیں امانت والوں کو43 اور جب فیصلہ کرنے لگو لوگوں میں تو فیصلہ کرو انصاف سے بیشک اللہ اچھی نصیحت کرتا ہے تم کو بیشک اللہ ہے سننے والا دیکھنے والا
حصہ دوم (احکام سلطانیہ): پہلا حکم سلطانی : حقداروں کو ان کے حقوق دلواؤ اور فیصلے انصاف سے کیا کرو یہاں خطاب حکام اور امراء مسلمین کو ہے جیسا کہ حضرت علی اور دوسرے مفسرین سے منقول ہے۔ قال علی بن ابی طالب و زید بن اسلم و شھر بن حوشب وابن زید ھذا خطاب لولاۃ الملمین خاصۃ الخ (قرطبی ج 5 ص 256) یہاں حکام اور صاحب اقتدار طبقہ کو حکم دیا گیا کہ حقداروں کے حقوق لوگوں سے دلواؤ اور باہمی نزاعات اور جھگڑے عدل و انصاف سے طے کرو اور رعیت کو حکم دیا گیا کہ ایسے حکام کی فرمانبرداری کرو اور اپنے جھگڑے ایسے حکام کے پاس لے جایا کرو جو عدل و انصاف سے فیصلہ کیا کریں۔ حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ اَمَانَات سے یہاں مراد عام ہے اور ہر قسم کی ذمہ داریوں اور عدل و انصاف کے فیصلوں کو شامل ہے الخطاب عام یتناول الولاۃ فیما الیھم من الامات فی قسمۃ الاموال ورد الظلامات و عدل الحکومات الخ (بحر ج 3 ص 277) ۔ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیءٍ الخ اس میں خطاب حکام اور رعایا سے ہے یعنی اگر حکام اور رعایا میں کسی معاملہ میں تنازع یا اختلاف پیدا ہوجائے تو اس کو ختم کرنے صورت یہ ہے کہ اس کے متعلق اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی طرف رجوع کیا جائے اور کتاب و سنت سے جو ہدایات ملیں ان پر عمل کیا جائے نہ یہ کہ چند انسانوں کی ایک مشاورتی ٹیم کو فیصل بنا کر اس کے فیصلوں کو حرف آخر کی حیثیت دی جائے۔
Top