Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور مت پکڑا دو بےعقلوں کو اپنے وہ مال جن کو بنایا ہے اللہ نے تمہارے گزران کا سبب7 اور ان کو اس میں سے کھلاتے اور پہناتے رہو اور کہو ان سے بات معقول
7 چوتھا حکم رعیت۔ (سن رشد سے پہلے یتیموں کو ان کا مال نہ دو ۔ جب دو اس پر گواہ بنا لو) ۔ یہ حکم یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے سے متعلق ہے۔ یعنی جب تک یتیم کم عقل اور نابالغ ہوں اس وقت تک ان کے اموال ان کے حوالے نہ کرو۔ البتہ ان کی خوراک و پوشاک وغیرہ کے اخراجات انہی کے مال سے اٹھاؤ اور یتیموں سے کہہ دو کہ تمہارا مال ہمارے پاس محفوظ ہے ہم اس کے امین اور محافظ ہیں۔ جب تم بالغ ہوجاؤ گے اور اپنے نفع اور نقصان کو سمجھنے لگو گے تو تمہارا مال تمہارے حوالے کردیا جائیگا۔ اور جب یتامی سنِ رشد کو پہنچ جائیں اور تم ان کے اموال ان کے سپرد کرنے لگو تو اصولی طور پر گواہ بنا لو تاکہ تم پر تہمت خیانت کا شبہ باقی نہ رہے اور ان کو اطمینان ہوجائے کہ تم نے ان کا مال ضائع نہیں کیا۔ اِسْرَافاً وَّ بِدَاراً دونوں مصدر ہیں بمعنی اسم فاعل اور لَا تَاکُلُوْا کی ضمیر سے حال ہیں اَیْ لَاتَاکُلُوْھَا مُسْرِفِیْنَ وَ مُبَادِرِیْنَ (روح ج 4 ص 207، مدارک ج 1 ص 162) اور اَنْ یَّکْبَرُوْا سے پہلے مِنْ مقدر ہے۔ یعنی یتیموں کا مال اس طرح مت کھاؤ کہ اسراف سے کام لو اور ان کا سارا مال ہضم کرنے کی غرض سے جلدی جلدی اسے ختم کر ڈالو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بڑے ہو کر سن رشد کو پہنچ جائیں اور تمہیں ان کا مال ان کے حوالے کرنا پڑے۔ اس کے بعد جائز طریقہ سے مال یتیم سے فائدہ اٹھانے کی اجازت فرمادی۔ وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ۔ یعنی اگر یتیم کا ولی مالدار ہو تو وہ یتیم کے مال سے بالکلیہ اجتناب کرے نہ اس میں قرض لے اور نہ اس میں تجارت کرے۔ وَمَنْ کَانَ فَقِیْراً فَلْیَاکُلْ بِالْمَعْرُوْف۔ اور اگر تنگ دست ہو تو اسے اجازت ہے کہ جائز طریقہ سے انتفاع کرے۔ مثلاً اس میں سے قرض لے اور بوقت فراخی ادا کردے۔ یا مال یتیم میں تجارت کرے اور منافع سے جائز حصہ وصول کرے۔ یا اس کے مال کی حفاظت و اصلاح کی اجرت لے۔ والمعروف القرض ای یستقرض مال الْیتیم اذا احتاج الیہ فاذا ایسر قضاہ وقال قوم المعروف ان یاخذ من مالہ بقدر قیامہ واجرۃ عملہ (خازن ج 1 ص 403) ۔
Top