Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 72
وَ اِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ١ۚ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَهُمْ شَهِیْدًا
وَاِنَّ : اور بیشک مِنْكُمْ : تم میں لَمَنْ : وہ ہے جو لَّيُبَطِّئَنَّ : ضرور دیر لگا دے گا فَاِنْ : پھر اگر اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالَ : کہے قَدْ اَنْعَمَ : بیشک انعام کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيَّ : مجھ پر اِذْ : جب لَمْ اَكُنْ : میں نہ تھا مَّعَھُمْ : ان کے ساتھ شَهِيْدًا : حاضر۔ موجود
اور بیشک تم میں بعضا ایسا ہے کہ البتہ دیر لگاوے50 گا پھر اگر تم کو کوئی مصیبت پہنچے تو کہے اللہ نے مجھ پر فضل کیا کہ میں نہ ہوا ان کے ساتھ  
ٖف 50 یہ زجر اور شکوی ہے ان منافقین کے لیے جو مسلمانوں میں موجود تھے ان کی اپنی ہمتیں تو پست تھیں ہی ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کو بھی بد دل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ المراد منہ المنافقون کانوا یثبطون الناس عن رسول اللہ ﷺ (کبیر ج 3 ص 384) ۔ لَیْبَطِّئَنَّ لازم اور متعدی دونوں طرح آتا ہے یعنی وہ خود پیچھے ہٹتے تھے یا لوگوں کو ہٹاتے تھے۔ فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبۃٌ الخ ان منافقوں کا حال یہ تھا کہ اگر خدا نخواستہ مسلمانوں کو شکست ہوجاتی تو کہتے یہ تو ہم پر خدا کا بڑا احسان ہوا کہ ہم ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں تھے ورنہ ہم بھی ان کے ساتھ پس جاتے۔ وَلَئِنْ اَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللہِ الخ اور اگر مسلمانوں کی فتح ہوجاتی اور مال غنیمت انبار در انبار ان کے ہاتھ آجائے تو منافقین حسرت و افسوس سے انگلیاں کاٹنے لگتے اور کہتے کاش ! ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تو مال غنیمت سے کثیر دولت ہاتھ آتی اور مالا مال ہوجاتے۔ لَیَقُوْلَنَّ کا مقولہ یٰلَیْتَنِی سے شروع ہوتا ہے۔ اور کَاَنْ لَّمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہٗ مَوَدَّۃٌ درمیان میں جملہ معترضہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین ایسی باتیں اس لئے کہتے ہیں گویا تمہارے اور ان کے درمیان کسی قسم کا دینی رشتہ اور تعلق موجود نہیں اور منافقوں کی دوستی جو مسلمانوں کے ساتھ تھی وہ محض ظاہری تھی ان کے دل میں وہی بغض و عداوت تھی۔ کذا فی المدارک والخازن و ابی السعود والکبیر وغیرہا۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بطور خوشامد ایسی باتیں کرتے ہیں گویا ظاہر کرتے ہیں کہ پہلے میرا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اگر ان کے ساتھ کچھ دوستی کا تعلق ہوتا تو وہ بھی ان کے ساتھ ضرور جہاد میں شریک ہوتا اور فوز عظیم حاصل کرلیتا۔ حضرت شیخ کے نزدیک یہ معنی راجح ہیں۔
Top