Jawahir-ul-Quran - Az-Zukhruf : 15
وَ جَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِیْنٌؕ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے مِنْ عِبَادِهٖ : اس کے بندوں میں سے جُزْءًا : ایک جزو۔ حصہ ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ : بیشک انسان لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ : البتہ ناشکرا ہے کھلم کھلا
اور ٹھہرائی ہے انہوں نے حق تعالیٰ کے واسطے اولاد اس کے بندوں10 میں سے تحقیق انسان بڑا ناشکرا ہے صریح
10:۔ ” وجعلوا لہ “ تا ” عقبۃ المکذبین “ شکوی ہے۔ مشرکین کے اعتراف (دلیل عقلی) سے اور پھر دلیل پر تنویر سے ثابت ہوگیا کہ ہر چیز کا خالق اور سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اب مشرکین مکہ پر شکوی کیا گیا جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں اور اس کے نائب متصرف مانتے تھے۔ جزءا ای ولدا، ولد کو جزء سے تعبیر کیا گیا اور مراد اس سے نائب متصرف ہے نہ کہ حقیقی ولد جیسا کہ کئی جگہوں میں اس مضمون کو اتخاذ ولد (بیٹا بنا لینا) سے تعبیری کیا گیا ہے۔ ای قالوا الملائکۃ بنات اللہ (مدارک ج 4 ص 87) ۔ یا جزء کے معنی برابر اور ہمسر کے ہیں۔ امام قتادہ فرماتے ہیں۔ جزء سے معبود غیر اللہ مراد ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اس اعتراف کے باوجود کہ ساری کائنات کا خالق اللہ ہے، پھر بھی مشرکین اس کی مخلوق کو اور اس کے بندوں کو اس کی عبادت و تعظیم میں اور اس کی صفات میں اس کا شریک بناتے ہیں۔ جزءا ای عدلا ؟ عن قتادۃ یعنی ما عبد من دون اللہ عز و جل (قرطبی ج 16 ص 69) ۔ وقال قتدۃ جزءا ای ندا (بحر ج 8 ص 8) ۔ بیشک انسان نہایت ہی نا شکگر گذار ہے اور اس کی ناشکر گذاری بالکل واضح اور ظاہر ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو اور ساری کائنات کے بادشاہ کو بھی اپنی صفات میں یگانہ اور وحدہٗ لا شریک لہ نہیں مانتا اور العیاذ باللہ اسے نائبین کا محتاج سمجھتا ہے۔
Top