Jawahir-ul-Quran - Al-Fath : 25
هُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ الْهَدْیَ مَعْكُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ١ؕ وَ لَوْ لَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَ نِسَآءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَطَئُوْهُمْ فَتُصِیْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ۚ لِیُدْخِلَ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا
هُمُ : وہ، یہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا وَصَدُّوْكُمْ : اور تمہیں روکا عَنِ : سے الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَالْهَدْيَ : اور قربانی کے جانور مَعْكُوْفًا : رکے ہوئے اَنْ يَّبْلُغَ : کہ وہ پہنچے مَحِلَّهٗ ۭ : اپنا مقام وَلَوْلَا رِجَالٌ : اور اگر نہ کچھ مرد مُّؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) وَنِسَآءٌ : اور عورتیں مُّؤْمِنٰتٌ : مومن (جمع) لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ : تم نہیں جانتے انہیں اَنْ : کہ تَطَئُوْهُمْ : تم انکو پامال کردیتے فَتُصِيْبَكُمْ : پس تمہیں پہنچ جاتا مِّنْهُمْ : ان سے مَّعَرَّةٌۢ : صدمہ، نقصان بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ : نادانستہ لِيُدْخِلَ : تاکہ داخل کرے اللّٰهُ : اللہ فِيْ رَحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جسے وہ چاہے لَوْ تَزَيَّلُوْا : اگر وہ جدا ہوجاتے لَعَذَّبْنَا : البتہ ہم عذاب دیتے الَّذِيْنَ : ان لوگوں کو كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے مِنْهُمْ : ان میں سے عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک
یہ وہی لوگ ہیں جو منکر ہوئے اور روکا تم کو21 مسجد حرام سے اور نیاز کی قربانی کو بھی بند پڑی ہوئی اس بات سے کہ پہنچے اپنی جگہ تک اور اگر نہ ہوتے کتنے ایک مرد ایمان والے اور کتنی عورتیں ایمان والیاں جو تم کو معلوم نہیں یہ خطرہ کہ تم ان کو پیس ڈالتے پھر تم ان کی وجہ سے خرابی پڑجاتی بیخبر ی سے کہ اللہ کو داخل کرنا ہے اپنی رحمت میں جس کو چاہے اگر وہ لوگ ایک طرف ہوجاتے تو آفت ڈالتے ہم منکروں پر عذاب دردناک کی
21:۔ ” ھم الذین والھدی ‘ ” کم “ ضمیر خطاب پر معطوف ہے۔ معکوفا، الھدی سے حال ہے یعنی رکی ہوئی۔ ” ان یبلغ محلہ “ یہ الھدی سے بدل الاشتمال ہے (روح) ان مشرکین نے تمہیں بیت اللہ تک پہنچنے سے روکا۔ اور قربانی کے جانور جو مقام حدیبیہ میں رکے ہوئے تھے ان کو قربان گاہ یعنی مقام منی میں پہنچنے سے روکا۔ اس لحاظ سے مشرکین مکہ مجرم اور ظالم ہیں، اور اس لائق نہیں تھے کہ انہیں معاف کیا جاتا اور ان سے جنگ نہ کیجاتی لیکن مکہ میں کچھ ایسے مسلمان مرد اور عورتیں موجود تھیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے، بصورت قتال وہ بیچارے بھی جنگ میں کچل دئیے جاتے اور بعد میں تمہیں اس پر افسوس اور پشیمانی لاحق ہوتی۔ اگر یہ مسلمان ان میں نہ ہوتے تو تمہیں اہل مکہ سے بھڑا کر تمہارے ہاتھوں ان کو قتل و قید کی صورت میں ہم دردناک سزا دیتے۔ یہ جنگ کو روکنے کی دوسری حکمت تھی۔ رجال مؤمنون الخ “ موصوف مبدل منہ، لم تعلموھم صفت، ” ان تطئوھم “ بدل الاشتمال ہے یعنی مکہ میں ان کا ہونا بایں معنی کہ تمہارے پاؤں تلے ان کے کچلے جانے کا احتمال نہ ہوتا۔ فتصیبکم الخ، تمہارے ان کو روندنے کی وجہ سے تمہیں دلی رنج ہوتا۔ اور تم تکلیف و مشقت میں پڑجاتے۔ ” لوتزیلوا “ یہ بعد عہد کی وجہ سے ” لولا رجال الخ “ کا اعادہ ہے اور ” لعذبنا “ لولا، کا جواب ہے اور ” لیدخل اللہ الخ “ درمیان میں ترک عذاب کی علت کا بیان ہے اور اس کا متعلق محذوف ہے۔ کفہا لیدخل، یا ترکنا العذاب لیدخل، یہ کف قتال کی تیسری حکمت ہے، یعنی جنگ کو روک کر اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ میں سے بہت بڑی تعداد کو اسلام کی توفیق عطاء فرما کر اپنی رحمت میں لے لیا۔ (من الروح والمدارک) ۔
Top