Jawahir-ul-Quran - Al-Fath : 8
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
ہم نے تجھ کو بھیجا8 احوال بتانے والا اور خوشی اور ڈر سنانے والا
8:۔” انا ارسلنک۔ الایۃ “ ایمان اور نصرت پیغمبر (علیہ السلام) کی ترغیب ہے شاہد کے معنی بتانے والے اور بیان کرنے والے کے ہیں (شاہ ولی اللہ و شاہ عبدالقادر) نہ حاضر و ناظر۔ لہذا اس سے آنحضرت ﷺ کے علم غیب پر استدلال درست نہیں۔ ” لتومنوابالل “ امام ابن کثیر اور ابو عمرو کی قراءت میں چاروں افعال بصیغہ غائب ہیں اس صورت میں مفہوم واضح ہے۔ باقی ائمہ قراءت کی روایتوں میں چار افعال بصیغہ کطاب ہیں۔ ” لتومنوا الخ “ میں خطاب رسول خدا ﷺ اور امت سے ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔ ” یا ایہا النبی اذا طلقتم النساء “ (طلاق رکوع 1) ۔ یہ تغلیب مخاطب علی الغائب کے قبیل سے ہے اور آنحضرت ﷺ بھی اپنی رسالت پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ الخطاب للنبی ﷺ وامتد کقولہ سبحانہ (یا ایہا النبی اذا طلقتم النساء) وھو من باب التغلیب غلب فیہ المخاطب علی الغیب فیفید ان النبی (علیہ الصلوۃ والسلام) مخاطب بالایمان برسالتہ کالامۃ وھو کذلک (روح ج 26 ص 95) ۔ ” تعزروہ یعنی اس کی مدد کرو ” توقروہ “ یعنی اس کی تعظیم کرو، دونوں جگہ ضمیر غائب رسول اللہ ﷺ سے کنایہ ہے اور اس میں خطاب سے غیبت کی طرف التفات ہے اور ” تسبحوہ “ میں ضمیر غائب لفظ جلالت کی طرف راجع ہے یہ توحید اور رسالت کا بیان ہے ہم نے آپ کو بیان کرنے والا اور بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے تاکہ سب لوگ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائیں، اس کی تسبیح و تقدیس کریں اور شرک سے اس کی پاکیزگی بیان کریں اور اللہ کے رسول پر ایمان لائیں اور مشرکین کے مقابلے میں اس کی مدد کریں اور اس کا اکرام و احترام کریں۔ آپ کے اکرام و احترام کے کچھ آداب سورة حجرات میں آرہے ہیں۔ یہ احکام پہلی دونوں بشارتوں پر مبنی ہیں یعنی جب اللہ نے تمہیں مذکورہ بالا دو بشارتیں دی ہیں تو تم اس کا شکر کرو اس کی تسبیح و تنزیہ میں رطب اللسان رہو اور اس کو ہر شریک سے پاک سمجھو اور عبادت اور پکار میں کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ بناؤ اور پیغمبر خدا ﷺ کی مدد کرو اور آپ کی تعظیم بجا لاؤ، کیو کہ یہ سارے انعامات آپ ہی کی وساطت سے تمہیں ملے ہیں۔ نیز ” تسبحوہ “ میں مسئلہ توحید بطور ترقی مذکور ہے۔ سورة محمد ﷺ میں فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی پکار کے لائق کوئی نہیں اور سورة فتح میں فرمایا ” وتسبحوہ “ یعنی پکار میں اس کو شریکوں سے پاک سمجھیں۔
Top