Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
جس دن اللہ جمع کرے گا سب پیغمبروں کو پھر کہے گا تم کو کیا174 جواب ملا تھا   وہ کہیں گے ہم کو خبر نہیں تو ہی ہے چھپی باتوں کو جاننے والا
174 پہلے نفی شرک فعلی کے سلسلے میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ غیب دان صرف اللہ ہے۔ اس کے سوا کوئی غیب دان نہیں اب یہاں قیامت کے دن پیش آنیوالا ایک واقعہ ذکر کر کے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ اور تو اور خود انبیاء (علیہم السلام) جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ساری مخلوق پر فوقیت اور برتری عطا فرمائی وہ بھی غیب دان نہیں تھے وہ نہ زندگی میں غیب جانتے تھے نہ موت کے بعد لوگ غیر اللہ کے نام کی نذریں اور نیازیں صرف اس لیے دیتے تھے کہ وہ ہماری حاجات کو جانتے اور ہمیں نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں جیسا کہ آج کل کے مشرکین کا بھی اپنے پیروں کے متعلق عقیدہ ہے۔ تو آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ صاف فرما دیا کہ انبیاء (علیہم السلام) تو غیب جانتے نہیں جو سب سے افضل ہیں۔ چناچہ وہ قیامت کے دن صاف کہیں گے کہ ان کے پیچھے جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کا انہیں کچھ علم نہیں۔ پھر جو لوگ انبیاء (علیہم السلام) سے رتبہ میں کمتر ہیں وہ کس طرح غیب دان ہوسکتے ہیں۔ یَوْمَ ظرف کا عامل بعد میں مذکور ہے۔ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا۔ فَیَقُوْلُ ، یَجْمَعُ پر معطوف ہے یعنی جس دن اللہ تمام رسولوں کو جمع کر کے ان سے یہ سوال کرے گا کہ تمہیں تبلیغ توحید کے بعد اپنی امتوں کی طرف سے کیا جواب ملا اس دن وہ سب کہیں گے کہ ہمیں تو اس کا کچھ علم نہیں۔ یہ تو غیب کی بات ہے اور تمام غیبوں کا جاننے والا صرف تو ہی ہے اور کوئی نہیں۔ یہ آیت حضرات انبیاء (علیہم السلام) سے علم غیب کی نفی پر برہان قاطع ہے اس آیت میں مَا ذَا اُجِبْتُمْ کے دو معنی ہیں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سوال تبلیغ کے وقت سے متعلق ہوگا کہ جب تم تبلیغ کرتے تھے اس وقت لوگوں نے تمہاری بات کو قبول کیا یا نہ تو وہ جواب دیں گے۔ لَا عِلْمَ لَنَا بباطن ما اجاب بہ۔۔۔ (قرطبی ج 6 ص 361) یعنی ان کے باطن کو ہم نہیں جانتے تھے ہمیں صرف ان کے ظاہر کا علم تھا لیکن اس میں عبارت مقدر کر کے مطلب نکالنا پڑتا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ یہ سوال انبیاء (علیہم السلام) سے ان کی وفات سے بعد کے حالات سے متعلق ہوگا کہ تمہاری وفات کے بعد ان لوگوں کے کیا حالات تھے کیا یہ تمہیں پکارتے رہے ہیں اور کیا تمہیں اس کا علم ہے تو اس کے جواب میں انبیاء (علیہم السلام) کہیں گے کہ اے اللہ بعد کے حالات کا تو ہمیں کوئی علم نہیں جیسا کہ اگلی آیت سے اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں یہی کہیں گے۔ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ الخ اسی طرح سورة یونس ع 3 میں ہے کہ جن انبیاء و اولیاء کو لوگ دنیا میں پکارتے رہے قیامت کے دن وہ صاف کہیں گے کہ ہمیں تو ان کی پکار وغیرہ کا کوئی علم نہیں۔ اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ بہت سے مفسرین نے اس سوال کو بعد الوفات کے حالات سے متعلق قرار دیا ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں لا علم لنا الا ان علمنا جوابہم لنا وقت حیاتنا ولا نعلم ما کان منھم بعد وفاتنا (کبیر ج 3 ص 689) ۔ اہل بدعت کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ انبیا (علیہم السلام) کو معلوم تو سب کچھ ہوگا لیکن ہول قیامت کے وجہ سے وہ جواب نہیں دے سکیں گے اور علم کی نفی کردیں گے۔ یہ جواب دو وجہ سے غلط ہے۔ 1 ۔ اس لیے کہ انبیاء (علیہم السلام) قیامت کے ہول اور جزع فزع سے محفوظ ہوں گے اور ان پر کوئی گھبراہٹ طاری نہیں ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لَا یَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ (انبیاء ع 7) یعنی جن لوگوں کے لیے حُسْنیٰ (جنت) کا وعدہ ہوچکا ہے۔ وہ قیامت کی فزع اکبر (سب سے بڑی گھبراہٹ) سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ 2 ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان کو سب کچھ معلوم تھا تو اس صورت لا علم لنا واقعہ کے صریح خلاف اور جھوٹ ہوگا۔
Top