Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 24
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّا : بیشک ہم لَنْ نَّدْخُلَهَآ : ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے اَبَدًا : کبھی بھی مَّا دَامُوْا : جب تک وہ ہیں فِيْهَا : اس میں فَاذْهَبْ : سو تو جا اَنْتَ : تو وَرَبُّكَ : اور تیرا رب فَقَاتِلَآ : تم دونوں لڑو اِنَّا : ہم ھٰهُنَا : یہیں قٰعِدُوْنَ : بیٹھے ہیں
بولے اے موسیٰ53 ہم ہرگز نہ جاویں گے ساری عمر جب تک وہ رہیں گے اس میں سو تو جا اور تیرا رب اور تم دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں
53 قَالُوْا یٰمُوْسیٰ الخ ان دونوں کی باتوں کا بنی اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ انہوں نے ان کے وعظ و نصیحت کو کوئی اہمیت ہی نہ دی اور ان کو قابل خطاب بھی نہ سمجھا اور اپنی ضد پر اڑے رہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے وہی اپنا پہلا جواب دہرایا اور اس کے ساتھ مزید کہا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ الخ بعض مفسرین نے لفظ رب کو اس کے حقیقی مفہوم پر محمول کیا ہے یعنی تم اور تمہارا رب جائیں اور ان سے لڑیں ہم تو یہاں سے ہلیں گے بھی نہیں اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ تم جا کر ان سے لڑو اللہ تمہارا ساتھی ہوگا اور تمہارا ناصر و مددگار ہوگا۔ الوجہ فیہ ان یقال اذھب انت و ربک یعینک علی قتالک (مدارک ص 216 ج 1) ہم میں تو ان کا مقابلہ کرنے کی جراءت نہیں یا انہوں نے یہ الفاظ اللہ اور اس کے رسول سے استہزاء اور استہانت کے طور پر کہے تھے وقالوا ذالک استہانۃ واستہزاءً بہ سبحانہ و برسولہ علیہ الصلوہ والسلام و عدم المبالاہ بھما (روح ج 6 ص ص 108) وابو السعود ج 3 ص 554) یا رب سے مجازاً سردار یعنی حضرت ہارون (علیہ السلام) مراد ہیں کیونکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بڑے بھائی تھے۔ او وربک ؟ و سیدک وھو اخوک الاکبر ھرون (مدارک) یعنی ہم تو جہاد کرنے سے رہے اور اگر تمہیں جہاد لازمی طور پر کرنا ہی ہے تو اپنے بھائی کے ساتھ ان سے جا کر لڑو۔
Top