Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 71
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور حَسِبُوْٓا : انہوں نے گمان کیا اَلَّا تَكُوْنَ : کہ نہ ہوگی فِتْنَةٌ : کوئی خرابی فَعَمُوْا : سو وہ اندھے ہوئے وَ : اور صَمُّوْا : بہرے ہوگئے ثُمَّ : تو تَابَ : توبہ قبول کی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان کی ثُمَّ : پھر عَمُوْا : اندھے ہوگئے وَصَمُّوْا : اور بہرے ہوگئے كَثِيْرٌ : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھ رہا ہے بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور خیال کیا کہ کچھ126 خرابی نہ ہوگی سو اندھے ہوگئے اور بہرے پھر توبہ قبول کی اللہ127 نے ان کی پھر اندھے اور بہرے ہوئے ان میں سے بہت128 اور اللہ دیکھتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں  
126 فِنْنَۃٌ کے معنی آزمائش اور ابتلاء کے ہیں۔ فَعَمُوْا دین کی جو راہ رسولوں نے ان کو دکھائی تھی اس سے وہ محض سرکشی اور عناد کی وجہ سے وہ دانستہ اندھے بن گئے وَصمُّوْا اور حق بات سننے سے بہرے بن گئے۔ یعنی بنی اسرائیل نے سمجھا کہ اللہ کی طرف سے ان پر کوئی عذاب یا امتحان نہیں آئے گا کیونکہ وہ نَحْنُ اَبْنَاءُ اللہِ وَ اَحِبَّاء ہٗ (ہم اللہ کے چہیتے اور اس کے محبوب ہیں) کے فخر میں مغرور و سر مست تھے (قرطبی) اس لیے انہوں نے تورات کے احکام سے آنکھیں اور کان بند کرلیے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ 127: پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں توبہ کی توفیق دینے اور ان کی توبہ قبول کرنے کا سامان اس طرح بہم پہنچایا کہ حضرت خاتم النبیین ﷺ وعلیہم کو مبعوث فرمایا جنہوں نے بنی اسرائیل کو توبہ کی راہ دکھائی کہ اگر وہ اللہ کی توحید پر اور آنحضرت ﷺ کی نبوت پر ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ (قرطبی) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا کر توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی تَابَ اللہُ عَلَیْھِمْ حین تابوا وامنوا بعیسی (علیہ السلام) (مظھری ج 3 ص 158) ۔ 128 لیکن جب آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے اور آپ نے اللہ کی توحید اور اپنی نبوت کی طرف دعوت دی تو ان میں اکثر پھر حق سے اندھے اور بہرے ہوگئے اور ضد وعناد اور بغض و حسد کی وجہ سے حق کا انکار کردیا اور ان میں سے بہت کم لوگوں نے حق کو قبول کیا۔
Top